نیپال میں ماؤ نوازوں کی ہڑتال، تمام ادارے بند
2 مئی 2010پارلیمان میں ماؤ نواز پارٹی کی اکثریت کے باوجود وہاں دیگر جماعتوں کے اتحاد سے مخلوط حکومت قائم ہے اور ماؤنواز اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ اُسے حکومت میں شریک کیا جائے۔
گزشتہ کئی روز سے جاری مظاہروں میں ہفتے اوراتوار کو شدت اس وقت آئی، جب ماؤنوازوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہڑتال کر کے تمام کاروباری سرگرمیاں منجمد کر دیں۔ اس موقع پر تمام دوکانیں، ذرائع آمد و رفت، اسکول اور دفاتر بند رہے۔ مظاہرین کٹھمنڈو کی سڑکوں پر ڈنڈے لہراتے اور انقلابی نعرے لگاتے مارچ کر رہے ہیں۔ نیپال کے ایک سینیئر پولیس اہلکار بیگیان راج شرما کے مطابق ہڑتال کا دائرہ پورے ملک تک پھلا ہوا ہے اور اس وقت ملک بھر کے تمام صنعتی اور کاروباری ادارے مکمل طور پر بند ہیں۔ ہفتے کے روز تقریباً ایک لاکھ ماؤنوازوں نے کٹھمنڈو میں احتجاجی ریلی نکالی۔ یہ مظاہرین حکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبات کر رہے تھے۔
ماؤ نوازتقریباً دس برس تک حکومت کے خلاف جنگ کے بعد سن 2008ء میں ایک امن معاہدے کے تحت قومی دھارے میں شامل کئے گئے تھے اور انہیں آٹھ ماہ تک نیپال پر حکومت کا بھی موقع ملا تھا۔
قانون ساز اسمبلی کے ماؤنواز رہنما جھکو سوبیدی نے خبر رساں ادارے AFP سے بات چیت میں کہا کہ ان کی جماعت اپنے بل بوتے پر حکومت سازی کی نہیں بلکہ وسیع تر قومی حکومت میں شمولیت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’پرامن‘ ہڑتال کے ذریعے کٹھ پتلی حکومت پر دباؤ بڑھایا جاتا رہے گا۔
ہفتے کی شام ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں ملکی وزیراعظم مادھو کمار نے مستعفی ہونے کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے ماؤنوازوں سے بات چیت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام جماعتوں کی رضا مندی سے ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ کمار نے کہا کہ شٹرڈاؤن ہڑتال ملک کے مفاد میں نہیں ہےاور اس طرح کسی حل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
دوسری جانب ماضی میں تقریباً دس برس تک ماؤ نواز باغیوں کی قیادت کرنے والے پشپا کمار داہل نے کہا ہے کہ ملک میں ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک موجودہ حکومت گرا نہیں دی جاتی۔ پراچندہ کے نام سے پہچانے جانے والے داہل کی قیادت میں نیپال میں دس برسوں تک جاری رہنے والی بغاوت میں تقریباً 16 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ گزشتہ برس مئی میں پراچندہ کی حکومت اس وقت گرا دی گئی تھی، جب انہوں نے بحیثیت وزیراعظم فوجی سربراہ کو برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم صدر نے ان کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ان کی حکومت ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
ہفتے کے روز ہونے والی ہڑتال مجموعی طور پر پُر امن رہی تاہم سیکیورٹی فورسز اور اپوزیشن مظاہرین کے درمیان کسی ممکنہ ناخوشگوار واقعے کے خدشات موجود رہے۔ اس وقت بھی کٹھمنڈو سمیت ملک بھر میں شدید تناؤ اور کشیدگی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ پولیس کے مطابق دارالحکومت کھٹمنڈو میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ مظاہرین سڑکوں پر ہیں تاہم یہ تعداد بہرحال ماؤنوازوں کے اندازوں کے برعکس کم ہے۔ ماؤ نوازوں نے ان مظاہروں میں چھ لاکھ افراد کی شمولیت کا دعویٰ کیا تھا۔
ماؤنوازوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہڑتال کے باوجود وہ ایمبولینسوں، شہر کی صفائی پر مامور عملے اور کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کے لئے گھروں سے باہر نکلنے والے شہریوں کو کوئی زک نہیں پہنچائیں گے۔ تاہم عام شہری صرف شام کے اوقات میں دو گھنٹوں کے لئے ہی گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امجد علی