نیپال کے کرنسی نوٹ کے نئے ڈیزائن پر بھارت شدید ناراض
8 مئی 2024
نیپالی حکومت نے گزشتہ ہفتے سو روپے کے ایک نئے کرنسی نوٹ کے چھاپنے کا اعلان کیا۔ اس نوٹ پر لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی کے متنازع علاقوں کو دکھایا گیا ہے۔ بھارت ان علاقوں پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے کٹھمنڈو کے اس فیصلے پر اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا ہے کہ نیپال کے ایسے یک طرفہ اقدامات سے زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔
'اکھنڈ بھارت' نقشے پر پڑوسی ممالک کی بھارت سے بڑھتی ناراضی
چین اور نیپال کی سرحد پر نئی تعمیرات کا تنازعہ
نیپال کی حکومت کی ترجمان ریکھا شرما نے حکومت کے فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا، ''وزیر اعظم پشپ کمل دہل عرف پرچنڈاکی زیر صدارت وزارتی کونسل کی میٹنگ میں 100روپے کے نئے کرنسی نوٹ پر نیپال کے نئے نقشے کو، جس میں لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی شامل ہیں،چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘
انہو ں نے مزید کہا، ''کابینہ نے سو روپے کی نئی نیپالی کرنسی کے نئے ڈیزائن کی منظوری دے دی ہے اور اس پر پرانے نقشے کی جگہ ملک کا نیا نقشہ چھاپا جائے گا۔‘‘ ریکھا شرما نیپال کی وزیر برائے اطلاعات و مواصلات بھی ہیں۔
بھارت شدید ناراض
بھارت نے نیپال کے اس تازہ اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس نے اسے ’یک طرفہ عمل‘ اور نیپال کی جانب سے ’علاقائی دعووں کی مصنوعی توسیع‘ کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
بھارت کی مخالفت کے باوجود نیپالی پارلیمنٹ میں نیا نقشہ منظور
بھارت اور نیپال کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیپال کے اس اقدام سے صورت حال یا زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
نیپال کے حالیہ اقدامات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جے شنکر کا کہنا تھا، ''ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ نیپال کے ساتھ ہم ایک طے شدہ پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے سرحدی معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یک طرفہ طور پر اپنی طرف سے کچھ اقدامات کیے ہیں۔‘‘
نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ، بھارت کے لیے نیا درد سر
کرنسی نوٹ کے اس نئے ڈیزائن نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعے کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے، جس کے باعث حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات خراب ہوئے تھے۔
بھارتی نیپالی سرحدی تنازع
نیپال اپنے ہمسایوں کے برعکس کبھی بھی یورپی نوآبادیاتی حکمرانی میں نہیں رہا۔ وہ لمپیادھورا، کالاپانی اور لیپولیکھ پر اپنے دعووں کی بنیاد برطانوی حکومت کے ساتھ سن 1816 کے سوگولی معاہدے کو قرار دیتا ہے۔ تاہم 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد سے یہ علاقے بھارت کے کنٹرول میں ہیں۔
بھارت اور نیپال کے درمیان سرحدی تنازع مئی 2020 میں اس وقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا تھا، جب نئی دہلی نے مانسرور یاترا کے راستے میں واقع دھارچولا اور لیپولیکھ کے درمیان ایک سڑک کا افتتاح کیا تھا، جس پر کٹھمنڈو میں اس وقت کے وزیر اعظم کے پی شرما کی حکومت بہت ناراض ہوئی تھی۔
نیپال نے اس کے بعد اپنے ملک کا ایک نیا نقشہ جاری کیا، جس میں نیپال، بھارت اور چین کے ملنے والے مقام پر تقریباً 370 کلومیٹر کے رقبے کو نیپالی علاقے کے طور پر دکھایا گیا ہے حالانکہ بھارت اس پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
نیپالی پارلیمان نے بھی کالاپانی، لیپولیکھ اور لمپیادھورا کے اضافے کے ساتھ ملک کے نئے نقشے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک آئینی ترمیمی بل منظور کیا ہے۔ بل کی منظوری اور نئے نقشے کے اجرا کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مواصلاتی رابطہ عارضی طور پر منقطع ہوگیا تھا۔
سن 2020 کے برعکس جب نیپال کی تمام جماعتوں نے ملک کے نئے نقشے کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی، پرچنڈا حکومت کے تازہ فیصلے کوتنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض سابق سفارت کاروں اور نیپال کے مرکزی بینک کے سابق گورنروں نے حکومت کے اس فیصلے کو ''غیر دانش مندانہ‘‘ اور ''اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے۔