’نیچے جھکو اور ان بچوں کی لاشیں دیکھو‘
19 جنوری 2016برطانوی نشریاتی اسکائی نیوز کی ٹیم نے ’مائگریشن آف شور ایڈ اسٹیشن‘ کے ہمراہ بحیرہ ایجیئن میں ایک ریسکیو مشن میں حصہ لیا تھا۔ مشن کے دوران انہیں تارکین وطن کی ایک ڈوبتی ہوئی کشتی دکھائی دی۔
مذکورہ کشتی بارہ مردوں، پانچ خواتین اور چھ بچوں کو لے کر ترکی سے یونان کے سفر پر روانہ تھی۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق شام سے تھا۔ اسکائی نیوز نے امدادی کارروائی کو فلم بند کیا جس میں مدد کے لیے پکارتی عورتوں اور مردوں کے علاوہ روتے ہوئے بچوں کے ہولناک مناظر بھی دکھائے گئے۔
امدادی کارکن زیادہ تر تارکین وطن کو بچانے میں کامیاب رہے، تاہم ایک چار سالہ بچی اور دو سال کے دو بچے جانبر نہ ہو سکے۔
زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کو دوسری کشتی میں سوار کر کے یونانی جزیرے ساموس کی جانب لے جایا جا رہا تھا جس دوران پناہ گزینوں نے کشتی چلانے والے ترک شہری کے بارے میں یونانی ساحلی محافظوں کو اطلاع دی۔
یونانی پولیس نے اوسکارٹ نامی اکیس سالہ ترک شہری کو انسانوں کی اسمگلنگ اور تین بچوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ یونانی پولیس اوسکارٹ کو گھسیٹ کر بچوں کی لاشوں کے قریب لے آئی۔ اسکائی نیوز کے مطابق پولیس اہلکاروں نے اسے بچوں کی لاشیں دیکھنے پر زبردستی مجبور کیا۔
اوسکارٹ نے اپنا منہ پھیر لیا تاہم اسی دوران جب ایک ڈوب کر ہلاک ہونے والے بچے کا باپ اپنے بیٹے کی لاش ہاتھوں میں لے کر رونے لگا تو اوسکارٹ بھی پھوٹ کر رونے لگا۔
یونان کے وزیر شپنگ تھوڈوریس دریٹساس نے یونانی پولیس کے رویے کو سنگین جرم قرار دیا ہے۔ دریٹساس کا کہنا تھا کہ الزام ثابت ہونے تک کسی کو بھی مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، ’’ریاست اور اس کے اہلکاروں کو بد ترین جرم میں ملوث قیدی سے بھی پیشہ ورانہ انداز میں پیش آنا چاہیے۔‘‘
اوسکارٹ نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ اسے کشتی چلانے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ ساموس جزیرے کا دفتر استغاثہ اوسکارٹ پر انسانوں کی اسمگلنگ کے ساتھ بچوں کے قتل کا مقدمہ بھی چلائے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
جرم ثابت ہونے کی صورت میں یونانی قوانین کے مطابق اوسکارٹ کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔