واشنگ مشین کا 250 سالہ سفر
کپڑے دھونے کے طریقوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دینے والی واشنگ مشینوں کے بغیر آج کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر صنعتی ممالک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک جرمن الٰہیات دان نے اس کا خاکہ تقریبا ڈھائی سو برس پہلے پیش کیا تھا۔
گھر کی ملکہ
آج کپڑے دھونا آسان لگتا ہے۔ گندے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالے، نکالے اور سوکھنے کے لیے ڈال دیے۔ لیکن واشنگ مشین کے بغیر کپڑے دھونا آسان نہیں۔ پانی لینے جانے، محنت سے رگڑ رگڑ کر داغ دھبے اتارنے اور ہاتھ سے کپڑے نچوڑ کر سکھانے کا عمل تھکا دینے والا تھا۔ آج سے تقریبا 250 سال پہلے کپڑے دھونے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی سمت میں پہلی اہم تبدیلی شروع ہوئی۔
لانڈری انقلاب
آج کل ملنے والی جدید واشنگ مشین کا موجد ياكوب كرسچئيان شیفر کو مانا جاتا ہے۔ وہ دینی علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچر بھی تھے۔ ڈھائی سو سال پہلے انہوں نے ’’سب سے آرام دہ اور سب سے فائدہ مند واشنگ مشین‘‘ نامی تحریر شائع کی۔ اس میں انہوں نے واشنگ مشین کے ابتدائی ماڈل کا خاکہ پیش کیا تھا۔
’کپڑے دھونا عورتوں کا کام‘
پھرایک طویل عرصے تک اس حوالے سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ سن 1927 کا یہ اشتہار دکھاتا ہے کہ کپڑے دھونا خواتین کا ہی کام سمجھا جاتا تھا۔ پہلے انجینئرز کی فہرست میں خواتین کے مسائل کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی۔ لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں اس رویے میں تبدیلی آئی اور بنیادی طور پر مرد انجینئرز نے واشنگ مشینوں کی ترقی پر توجہ دی۔
واشنگ مشینوں کی بجائے ہتھیار
سن 1935 میں واشنگ مشینوں کے ایک صنعت کار نے لندن کے مضافاتی علاقوں کا دورہ کیا اور بجلی سے چلنے والی اپنی پہلی واشنگ مشین کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ دیکھنے والوں میں بھی صرف عورتیں ہی شامل تھیں۔ اس وقت تک یہ کسی کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن مرد خود بھی کپڑے دھوئیں گے۔ اس کے کچھ ہی سالوں بعد 1939ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور ساری توجہ ہتھیاروں کی ترقی کی طرف مرکوز ہو گئی۔
ایک عدد واشنگ مشین کا خواب
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی صحیح معنوں میں گھریلو استعمال کے لیے واشنگ مشین کی ترقی کا کام آگے بڑھا۔ سن 1951 میں جرمن مارکیٹ میں پہلی مرتبہ مکمل آٹو میٹک واشنگ مشین متعارف کرائی گئی، جس نے سب کو حیران کر دیا۔ ’كنسٹروكٹا' نامی واشنگ مشین کا وزن تقریبا 600 کلو گرام تھا اور قیمت 2280 مارک (یورو سے پہلے کی جرمن کرنسی)۔ زیادہ قیمت کی وجہ سے یہ مشین لوگوں کی پہنچ سے بہت دور تھی۔
صنعتی ترقی کا شکریہ
1960 کی دہائی میں اور بھی زیادہ سستے اور ہلکے ماڈل مارکیٹ میں آنے لگے۔ آہستہ آہستہ گھروں میں واشنگ مشین رکھنا ایک اسٹیٹس سمبل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ واشنگ مشین کو محبت کی علامت سے جوڑ دیا گیا۔ ایسے اشتہارات بنائے جانے لگے کہ سچی محبت کرنے والا شوہر اپنی محنتی بیوی کو واشنگ مشین ضرور دے گا۔ تصویر میں يینا کی یونیورسٹی میں لگائی گئی مکمل آٹو میٹک واشنگ مشین کو استعمال کرتی ہوئی ایک عورت۔
اشتہارات میں صرف عورت
1980 اور 90 کی دہائی والے ایسے اشتہارات سے لے کر آج تک بھی واشنگ مشین کے اشتہارات میں خواتین کو ہی کپڑے دھونے کا کام کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اشہتارات میں تو خواتین ہی رہیں لیکن مشینیں میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ موٹے، اونی اور ریشمی کپڑوں تک کے لیے خصوصی فنکشن مشینوں میں شامل ہونے لگے۔
مشین کی کارکردگی پر توجہ
جرمنی میں خاص طور پر خریدار مشینوں کی صلاحیت دیکھتے ہیں۔ انہیں توانائی بچانے والا ہونا چاہئے۔ جس مشین پر A + + + لکھا ہوتا ہے وہ بہت ہی کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ جتنی بجلی کم خرچ ہو گی، ماہانہ بل بھی اتنا ہی کم آئے گا۔
ملاقات کا بہانہ
جرمنی جیسے امیر ملک میں بھی بہت سے گھروں میں اپنی واشنگ مشین نہیں ہوتی۔ عوامی مقامات پر واشنگ سینٹر بنئ ہوئے ہیں۔ یہاں کپڑے دھونے والے خواتین اور مردوں کو انتظار کرتے ہوئے نئے لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ 250 برس پہلے شیفر نے ایسی ملاقاتوں کا خواب تک نہ دیکھا ہو گا۔