والدین کے ساتھ مشاورت سے بچوں کے نیند کے مسائل میں کمی
12 ستمبر 2011یونیورسٹی آف میلبورن کے جون کوآچ اور ان کی ٹیم کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن والدین سے بچوں کی نیند سے متعلق مشاورت کی گئی، ان کے بچوں کے سونے کی عادات ان بچوں سے کافی مختلف تھیں، جن کے والدین کو اس عمل میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کوآچ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک ای میل میں بتایا، ’’اسکول جانے والے ننھے بچوں میں نیند کے مسائل عام ہیں اور اُن کے والدین کے ساتھ مختصر مشاورت سے ان بچوں کا علاج ممکن ہے۔‘‘
محققین نے بتایا کہ پانچ چھ سال کی عمر کے بچوں کے نیند کے زیادہ تر مسائل کا تعلق بچے کے رویے سے ہوتا ہے۔ فلاڈیلفیا کی سینٹ جوزف یونیورسٹی کی ایک ماہر اطفال Jodi Mindell نے کہا:’’ان میں سے بعض بچوں کی نیند کی عادتیں اس لیے خراب ہیں کیونکہ وہ تاخیر سے سوتے ہیں، ان کی سونے کی کوئی روٹین نہیں ہے اور ان میں سے اکثر یہ اصرار کرتے ہیں کہ سوتے وقت ان کے والدین ان کے پاس ہوں۔‘‘
یہ تحقیق تعطیلات گزار کر دوبارہ اسکول جانے والے بچوں پر مرکوز تھی اور اس میں وہ بچے شامل تھے، جو پرائمری اسکول کے پہلے سال میں جا رہے تھے۔
کوآچ نے کہا کہ یہ نیند کے مسائل کو حل کرنے کی اچھی تحقیق ہے کیونکہ جن بچوں کی نیند پوری نہیں ہوتی، انہیں صبح اٹھ کر اسکول جانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی کارکردگی خراب ہو جاتی ہے اور بعد کی زندگی میں ساتھی انسانوں کے ساتھ روابط بھی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تحقیق کے دوران میلبورن کے 1,500 بچوں کے والدین کا سروے کیا گیا، جن میں سے 161 والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچے کو نیند کا معتدل یا شدید مسئلہ لاحق ہے۔ ان میں سے 108 کو تحقیق میں شامل کیا گیا۔ ان میں سے نصف والدین کے ساتھ اسکول میں نجی مشاورت سیشن منعقد کیا گیا اور اس کے دو ہفتے بعد ٹیلی فون پر ان کے بچے کے سونے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ باقی نصف والدین کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
اگلے سال محققین نے ایک بار پھر ان والدین سے ان کے بچوں کی نیند کے مسئلے کے بارے میں سروے کیا۔ ابتدائی مشاورت کے چھ ماہ بعد انہوں نے بچوں کا تعلیمی تجزیہ کیا۔ والدین کے دونوں گروپوں کے بچوں میں سونے کے مسائل تو حل ہو گئے مگر جن والدین سے مشاورت کی گئی تھی، ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی ان بچوں سے بہتر رہی، جن کے والدین سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔
والدین کے مطابق مشاورتی گروپ کے بچوں کی بستر پر جانے کی مزاحمت میں کمی واقع ہوئی اور انہیں جلد نیند بھی آ گئی۔ تاہم اس تحقیق کے اثرات صرف چند ماہ تک محسوس کیے گئے اور ان کا دیرپا اثر نہیں دیکھا گیا۔
محققین کا خیال ہے کہ انہیں یہ تحقیق بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے، جس میں زیادہ بچوں کو شامل کیا جائے اور ان کی تعلیمی کارکردگی کا ایک سال سے زائد عرصے تک جائزہ لیا جائے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عابد حسین