وسطی افریقی جمہوريہ کے ساتھ ہیں، فرانسیسی صدر
1 مارچ 2014فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ بروز جمعہ اٹھائیس فروری کو وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بنگوئی پہنچے، جہاں انہوں نے عبوری صدر کیتھرین سامبا پانزا اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ وہاں تعینات فرانسیسی فوجیوں سے خطاب بھی کیا۔ اولانڈ کا کہنا تھا، ’‘ہمیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں کو روکنا ہو گا۔ ہمیں حکومت کی رٹ قائم کرنا ہو گی تاکہ مذاکراتی عمل کے ذریعے اس افریقی ملک کی تقسیم کو روکا جا سکے۔‘‘
وسطی افریقی جمہوریہ میں نسلی فسادات شروع ہونے کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں پیرس حکومت نے وہاں اپنے سولہ سو امن فوجی تعینات کیے تھے، جن کی تعداد اب بڑھا کر دو ہزار کر دی گئی ہے۔ دسمبر کے بعد فرانسیسی صدر نے اس افریقی ملک کا دوسری مرتبہ دورہ کیا ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ میں افریقی یونین کے چھ ہزار فوجی بھی تعینات ہیں جبکہ یورپی یونین بھی وہاں ایک ہزار امن فوجی روانہ کرنے کا عندیہ دی چکی ہے۔
فرانسیسی صدر نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے ہزاروں انسانی زندگیاں بچ گئی ہیں۔ واضح رہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں اگرچہ فرانسیسی افواج کی تعیناتی کی وجہ سے صورتحال میں کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے تاہم بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران بنگوئی میں رونما ہونی والی پر تشدد کارروائیوں میں کم از کم دس افراد مارے جا چکے ہیں۔
خاتون صدر کیتھرین سامبا پانز نے جمعے کے دن اپنے فرانسیسی ہم منصب کے علاوہ مسیحیی و مسلمان مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ پائیدار قیام امن کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ انہوں نے وسطی افریقی جمہوریہ میں اقوام متحدہ کے امن فوجی مشن کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون آئندہ ہفتے اس افریقی ملک سے متعلق ایک رپورٹ پیش کرنے والے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر افریقی یونین کے امن مشن MISCA کو یو این کے مشن میں تبدیل کرنے کی تجویز دی جا سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے ہی اس تجویز کی حمایت کر چکی ہے۔
ادھر وسطی افریقی جمہوریہ میں تعینات فرانسیسی مشن کے کمانڈر جنرل سُوریانو نے مقامی آبادی پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں قیام امن کے لیے مصالحتی رویہ اختیار کریں۔ انہوں نے کہا، ’’میں جانتا ہوں کہ اس تنازعے کی وجہ سے بہت سے کنبے متاثر ہو چکے ہیں لیکن اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تمام عوام، چاہے وہ مسیحی ہیں یا مسلمان، کو ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے ہنر کو ایک مرتبہ پھر سیکھنا ہوگا۔‘‘