1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وسطی افریقی جمہوریہ: مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت

امتیاز احمد28 اپریل 2014

افریقی اور فرانسیسی امن فوجیوں نے دارالحکومت بنگوئی میں پھنسے ہوئے باقی ماندہ تیرہ سو مسلمانوں کو وہاں سے نکال لیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلح مسیحی عسکریت پسند انہیں ہلاک کر سکتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1BpFF
تصویر: ISSOUF SANOGO/AFP/Getty Images

براعظم افریقہ کے اندرونی خلفشار کے حامل ملک وسطی افریقی جمہوریہ کے بعض حکومتی اور سیاسی اہلکاروں کے خیال میں مسلمانوں کی یہ ہجرت گزشتہ اٹھارہ ماہ سے مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین جاری تنازعے میں مزید شدت پیدا کر سکتی ہے اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔

اتوار کے روز جب ان مسلمانوں کو وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت کے ایک محصور زدہ علاقے سے نکالا گیا تو غیر ملکی امن فوجی انہیں اپنی حفاظت میں لیے ہوئے تھے۔ ان تیرہ سو مسلمانوں کو بنگوئی کے شمال میں واقع پی کے 12 نامی ٹاؤن سے نکالا گیا۔ اسی علاقے میں سب سے زیادہ مسلمان آباد تھے اور اسی کو مسلمانوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سینئر مشیر یوان میرنر کا کہنا تھا، ‘‘ یہ صورتحال المناک اور ناقابل معافی ہے لیکن ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ان کے انخلاء کا ہی واحد راستہ بچا تھا۔‘‘ یوان میرنر کا کہنا تھا کہ دسمبر اور جنوری میں نسل کشی کے واقعات سے بچنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ہزاروں مسلمان ان علاقوں سے خاندانوں سمیت ہجرت کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ہزاروں مسلمانوں کی جبری نقل مکانی کو ان کی ’’نسل کُشی‘‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔

عیسائی عسکریت پسندوں کی تنظیم ’اینٹی بلاکا‘ کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسیحی مسلح گروپ مسلمان عسکری گروپ ’سیلیکا‘ کے مخالف ہیں۔ سیلیکا گروپ مختلف مسلمان عسکری گروہوں کے اتحاد سے سن 2012ء میں وجود میں آیا تھا اور ابتدائی طور پر اس گروپ نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا تھا۔

ان دو مذہبی گروپوں کے مابین خونی لڑائی کا آغاز ایک برس پہلے مارچ میں ہوا۔ گزشتہ برس مارچ میں سابق مسیحی صدر فرانسوا بوزيزے کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور ان کی جگہ میشل جوتودیا عسکری گروپ سیلیکا کی مدد سے اس ملک کے پہلے مسلمان صدر بن گئے تھے۔ جوتودیا سیلیکا کے سربراہ بھی تھے اور وہ رواں برس جنوری میں بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی تقریبا 80 فیصد آبادی مسیحی ہے۔

مارچ میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوئٹیرس کا 15 رکنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’دسمبر کے آغاز سے ہم غربت اور بحران کی شکار وسطی افریقی جمہوریہ CAR میں مسلمان آبادی کا مؤثر طریقے سے صفایا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہزاروں مسلمان یہ ملک چھوڑ چُکے ہیں، موجودہ بحرانوں میں یہ ہجرت کرنے والوں کا دوسرا بڑا بہاؤ ہے۔ جو مسلمان باشندے وسطی افریقی جمہوریہ میں رہ گئے ہیں انہیں مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔‘‘