اگر دیکھا جائے تو ان میں سب سے موثر سکھ مذہب کی وقف جائیدادیں ہیں، جو نہ صرف اس کمیونیٹی کی بہبود بلکہ ایک بڑی آبادی کو راحت پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے سکھ غالباً واحد مذہب ہے، جن کی وقف جائیدادیں ایک خود مختار اور منتخب انتظامیہ کی زیر نگرانی ہیں۔
گو کہ ہر مذہب میں سماج کی خدمت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، مگر ان کی عبادت گاہوں یا وقف سے منسلک اداروں کے خلاف بدعنوانی، اقربا پروری اور جائیدادوں کو اونے پونے داموں بیچنے کے الزامات کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔
بھارت میں سکھ ایک اقلیت ہے، جو کل آبادی کا 2 فیصد سے بھی کم ہیں۔ ان کے مذہبی مقامات اور دیگر ادارے شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) کے زیر انتظام ہیں، جو نہ صرف لنگر، ہسپتال اور تعلیمی ادارے چلاتی ہے، بلکہ قدرتی آفت کے وقت بھی مدد کے لیے پیش پیش رہتی ہے۔
شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی ایک منتخب ادارہ ہے اور وہ وقف جائیدادوں کے حوالے سے کمیونٹی کو جوابدہ ہوتا ہے۔ شاید یہی ایک وجہ ہے کہ یہ نظام بہت موثر انداز میں کامیابی سے چل رہا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
برسوں سے پارلیمنٹ ہاؤس سے ایک کلومیٹر دور دہلی کا جنتر منتر علاقہ آئے دن ہونے والے احتجاجات کی مرکز بن چکا ہے۔ کئی گروپ تو وہاں مہینوں مہینوں دھرنے پر بیٹھے رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تامل ناڈو سے آئے کسانوں کی ٹولی تو کئی ماہ وہاں دھرنے پر بیٹھی تھی۔وہ وہیں فٹ پاتھ پر ہی سوتے تھے۔ مجھے تجسس ہوا کہ چلو دیکھ کر آتے ہیں کہ فٹ پاتھ پر لگے شکستہ خیمے میں وہ رات بسر تو کر رہے ہیں لیکن گھروں سے کوسوں دور انہیں کھانا وغیرہ کون کھلاتا ہے؟ جبکہ ان میں سے اکثر افراد تو پہلی بار دہلی آئے تھے۔
معلوم ہو اکہ یہ سبھی کسان جو کم وہ بیش پانچ سو کے قریب تھے، روز صبح پاس کے بنگلہ صاحب گوردوارے میں جا کر ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور طعام کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی وہ گوردوارے کے باتھ روم میں نہاتے بھی تھے۔
ان کے آنے جانے اور کھانے پینے سے گوردوارے میں کسی کو دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے لیے یہ ایشور کی طرف سے بھیجے گئے مہمان یا سفیر تھے، جن کی خدمت کرنا یا جن کو کھانا مہیا کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ دنیا کے تقریبا تمام گوردواروں میں دن میں تین وقت لنگر چلتا رہتا ہے اور اس کو بالکل معزز انداز میں پروسا یعنی کھلایا جاتا ہے۔
سکھوں کی طرح مسلمانوں کو بھی بھارت میں اقلیت کا درجہ حاصل ہے اور ان کی عبادت گاہیں اور وقف شدہ جائیدادیں بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کا انتظام یا تو مقامی کمیونٹی کے چیدہ افراد یا حکومت کی طرف سے قائم اسٹیٹ وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل کے سپرد ہے۔
ابھی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔ وقف بورڈ مسلمانوں کی طرف سے مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے عطیہ کردہ جائیدادوں کا انتظام کرتا آیا ہے۔ وقف بورڈ بھارت کی سب سے بڑے زمینداروں میں سے ایک ہے، جس کی 8.7 لاکھ سے زیادہ جائیدادیں 9.4 ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وقف بورڈ کی انتظامیہ اور کارکردگی پر اکثر بدعنوانی، تجاوزات اور انتظامی نااہلی کے الزامات کی وجہ سے سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔ شاید ہی ان جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی بہبود پر کیا گیا ہو۔
مجوزہ ترامیم سے حکومت کو براہ راست زیادہ کردار ادا کرنے کا اختیار ملے گا، جس میں بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کرنا بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں ایوان منقسم ہو گیا ہے، جس میں ایک طرف حکمران پارٹی اور دوسری طرف مسلم کمیونٹی کی حمایت یافتہ اپوزیشن ہے۔
وقف بورڈ کو اپنی جائیدادوں کے انتظام میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سی جائیدادوں پر تجاوزات ہیں، کچھ نسلوں کے لیے لیز پر دی گئی ہیں، یا ملکیت کے بہت سے ریکارڈ لاپتہ ہیں۔ اوقاف بھی ضرورت سے زیادہ ریاستی کنٹرول کا شکار ہے، جو ان کی خود مختاری سے کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے۔
سکھ گوردوارو کے انتظام کی نگرانی کرنے کے لیے ایس جی پی سی، سکھ گوردوارہ ایکٹ 1925 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ سے پہلے، سکھوں کی عبادت گاہوں کا انتظام مہنتوں کے ذریعے کیا جاتا تھا، جو اکثر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے تھے اور اس وقت بدانتظامی اور بدعنوانی کے واقعات ہوا کرتے تھے۔
گوردوارہ ایکٹ نے اس کو یقینی بنایا ہے کہ یہ ادارے شفافیت اور سکھ روایات کے مطابق کام کریں۔ یہ خود مختار ڈھانچہ ایس جی پی سی کو بھارت میں بہت سے دیگر مذہبی اوقاف سے الگ کرتا ہے۔
دیگر مذہبی اوقاف کے برعکس جن کا انتظام حکمران جماعت کی طرف سے ان کی خدمات کے صلے کے لیے نامزد کردہ لوگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، ایس جی پی سی ایک منی پارلیمنٹ کی طرح کام کرتی ہے، جس کے اراکین سکھ برادری کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ منتخب اراکین نہ صرف گوردواروں بلکہ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی سروسز کا بھی انتظام کرتے ہیں۔
یہ کمیٹی مکمل طور پر سکھ برادری کو جوابدہ ہوتی ہے اور کوئی بھی حکومتی نمائندہ اس میں ملوث نہیں ہے۔ اس خودمختاری نے ایس جی پی سی کو اپنے اداروں کے تقدس کو برقرار رکھنے اور انہیں موثر طریقے سے چلانے کی اجازت دی ہے۔
اس سال، ایس جی پی سی نے اپنے زیر انتظام بہت سے گوردواروں کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک خیراتی کاموں کے لیے 1,260 کروڑ کا بجٹ پاس کیا ہے ۔سکھ گوردواراں کا انتظام اور ایس جی پی سی کا کردار اور اس کی خود مختاری اور جوابدہی دیگر مذہبی اوقاف کے لیے ایک مشعل راہ ہو سکتا ہے۔ یہ انتظام ظاہر کرتا ہے کہ اگر واقعی کمیونیٹیز کو معاملات سنبھالنے کے لیے بااختیار کیا جائے، تو وہ نہ صرف اپنی فلاح و بہبود بلکہ پورے سماج کی ترقی میں بہت مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔