وُوچجیک مہاجر کیمپ: مہاجرین سردی سے شدید خوفزدہ
بوسنیا اور ہیرسے گووینا کے شمال مغرب میں رواں برس موسم گرما سے مہاجرین کا کیمپ قائم ہے۔ حالات ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ یہ کیمپ گندگی سے بھرا ہے اور مضر صحت ہے۔ یہاں ہر شے کی کمی ہے اور اب سردی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
سردی کے علاوہ کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا
وُوچجیک کے مہاجر کیمپ کو اکتوبر کے اختتام سے سردی نے گھیر لیا ہے۔ بوسنیا میں درجہ حرارت دس سیلسیئس سے گر چکا ہے۔ زیادہ تر مہاجرین موسم سرما سے بچاؤ کے لباس بھی نہیں رکھتے۔ ان کا واحد سہارا عطیہ شدہ کپڑے اور کمبل ہیں۔ بعض کے پاس تو بہتر جوتوں کا جوڑا بھی نہیں ہے۔
زہریلا دھواں یا ٹھنڈ سے موت
اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین جنگل سے جمع شدہ لکڑیوں کو جلاتے ہیں۔ اپنے پتلے ترپالوں والے خیموں میں یہ مہاجرین منجمد کر دینے والی سردی سے بچنے کے لیے زہریلے دھوئیں میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس دھوئیں سے انہیں پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
ملبے پر زندگی
وُوچجیک کا مہاجر کیمپ رواں برس جون میں ضرورت کے تحت قائم کیا گیا۔ بوسنیا ہیرسے گووینا میں سات سے آٹھ ہزار کے درمیان مہاجرین ہیں۔ زیادہ تر شمال مغربی شہر بہاچ کی نواحی بستی میں رکھے گئے ہیں۔ سبھی کیمپ گنجائش سے زیادہ مہاجرین سے بھرے ہیں۔ وُوچجیک کا کپمپ بہاچ سے چند کلو میٹر دور زمین کی بھرائی کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ مہاجر کیمپ کے بین الاقوامی ضابطوں سے عاری ہے۔
انتہائی خطرناک کیمپ
امدادی تنظیمیں بوسنیا ہیرسے گووینا سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وُوچجیک کے کیمپ کو بند کر دیا جائے اور یہاں کے مہاجرین کو بہتر رہائش فراہم کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت کے ادارے کے کوآرڈینیٹر کے مطابق اگر مہاجرین نے موسم سرما اس کیمپ میں گزار دیا تو کئی کی موت ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین: نزدیک مگر بہت دور
وُوچجیک کا کیمپ کروشیا کی سرحد سے صرف چھ کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ کئی مہاجرین یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ بعض کامیاب اور بعض ناکام رہے۔ ناکام ہونے والے واپس اسی کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگیں بھی ہیں اور سڑک پر چلنا ہی بہتر ہے۔
ٹھنڈے پانی میں نہانا
وُوچجیک کے کیمپ میں کنستروں میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہے۔ یہی پینے اور نہانے کے لیے ہے۔ غیرصحت مندانہ ماحول بڑے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیمپ میں خارش کی بیماری اسکیبیز پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ بنیادی طبی امدادی دستیاب نہیں۔ شدید علالت کی صورت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔
باہر کی دنیا سے رابطہ
وُوچجیک کیمپ میں پانی اور بجلی کی محدود سپلائی ہے۔ موبائل فون رکھنے والے خوش قسمت ہیں کہ اُن کا رابطہ باہر کی دنیا سے ہے اور یہی ان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بعض مہاجرین کے مطابق ان کے فون چوری یا ضائع ہو چکے ہیں اور کئی کے فون سرحد پر کروشیا کی پولیس نے نکال لیے ہیں۔ کروشیا ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
گھر جیسی چھوٹی سی جگہ
وُوچجیک کیمپ میں یہ مہاجرین اپنے ملک جیسی روٹیاں پکانے میں مصروف ہیں۔ ریڈ کراس انہیں خوراک کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہ خوراک بہت کم خیال کی جاتی ہے۔ ریڈ کراس کے علاقائی سربراہ نے چند ماہ قبل سرائیوو حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے علاقے کو نظرانداز کر رکھا ہے۔
اکھٹے رہنے میں بہتری ہے
اس کیمپ میں آگ پوری طرح مہاجرین کے جسموں کو گرم رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ وُوچجیک سے فوری طور پر منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک افغان مہاجر کے مطابق سلووینیا اور کروشیا میں مویشیوں کے لیے بنائی گئی عمارتیں اس کیمپ سے بہتر ہیں۔ اُس کے مطابق یہ کیمپ نہیں ہے اور نہ ہی انسانوں کو رکھنے کی کوئی جگہ ہے۔