1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وکلا اور ڈاکٹروں کے تنازعے کے پیچھے کون ہے؟

13 دسمبر 2019

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق صدر اور وکیل رہنما حامد خان کے بقول وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کے پیچھے وہ قوتیں ہیں، جو کشیدگی کو بڑھاوا دے کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں، جن سے شہری آزادیاں سلب کی جا سکیں۔

https://p.dw.com/p/3Um3Q
Pakistan Lahore | Anwälte protestieren
تصویر: DW/T. Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کو شدت دینے میں وکلا، ڈاکٹروں اور حکومت تینوں کی غلطیاں شامل ہیں۔ ان کے بقول یہ تنازعہ معمولی بات سے شروع ہوا۔ حکومت حکمت سے کام لے کر اسے سلجھا سکتی تھی، اسے ختم کروا سکتی تھی لیکن حکومت نے پہلے ایف آئی آر درج کرنے میں دیر کی، پھر وکلا کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس کے باوجود  فریقین نے بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات طے کر لیے لیکن پھر کسی خفیہ ہاتھ نے ایک ڈاکٹر کی ایسی ویڈیو وائرل کر دی، جس میں وکلا کے خلاف تضحیک آمیز خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔

Pakistan Lahore Punjab Institute of Cardialogy nach Angriff von Anwälten
تصویر: DW/Tanvir Shahzad

حامد خان نے کہا کہ اس تنازعے کو بڑھاوا دینے والے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں شہری آزادیوں کی جنگ لڑنے والے پریشر گروپس کو متنازعہ بنا کر کمزور کیا جائے۔ اُن کے الفاظ میں پاکستان میں پہلے ہی ایک سویلین روپ میں ڈکٹیٹر شپ جاری ہے، انسانی حقوق سلب ہو رہے ہیں اور میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ ان حالات میں میڈیا کے بعد اُس وکلا برادری کو  تنہا کیا جا رہا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے غلط اقدامات کے خلاف بات کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ انہیں شدید خطرات لاحق ہیں کہ پاکستان میں ایک مخصوص صورتِ حال پیدا کر کے جمہوری قوتوں کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے۔

اُنہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ الزامات اور جوابی الزامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان واقعات کے پیچھے چھپی ہوئی اصل کہانی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور چند نوجوان وکیلوں کی غلطیوں کی وجہ سے پچھلے ستر سالوں سے آئین کی بالا دستی کی جدوجہد کرنے والی وکلا برادری کی کوششوں کو ڈس کریڈٹ نہ کریں۔

اس سے پہلے وکلا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سانحہ پی آئی سی کے دوران شہید ہونے والے مریضوں کے اہلِ خانہ سے معافی بھی مانگی تھی۔

دوسری طرف پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے تنازعے کو کسی تیسری قوت نے فساد کی شکل دی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی آئی سی حملے میں ملک دشمن سیاسی قوتوں کی سازش شامل تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پی آئی سی حملہ کیس کے پیچھے موجود عناصر کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

Pakistan Lahore Punjab Institute of Cardialogy nach Angriff von Anwälten
تصویر: DW/Tanvir Shahzad

پولیس کو وزیراعظم کے بھانجے کی تلاش

لاہور میں پولیس نے وزیراعظم عمران خان کے بھانجے بیریسٹر حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن اُن کے گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے گرفتار نہ کیا جا سکا۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حسان نیازی کی گرفتاری پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ یاد رہے 11 دسمبر 2019ء  جن وکلا نے دل کے ہسپتال پر حملہ کیا تھا۔ اُن میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بھانجے بیرسٹر حسان نیازی بھی شامل تھے۔

پی آئی سی پر وکلا کے حملے پر عدالت برہم

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے وکلا کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے وکلا سے کہا،'' آپ کو ہسپتال پر حملے کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ جب کہ اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں کیا جاتا۔ آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے اور جو کچھ وکلا نے کیا ہے وہ جنگل کا قانون ہے۔

اس موقع پر دو رکنی بینچ کے دوسرے جج جسٹس انوارالحق پنو نے سوال کیا کہ کیا اس کی کوئی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس واقع کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔ اس پر وکلا کی نمائندگی کرنے والے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا،'' ہم نے اس واقع کی مذمت کی ہے اور ہم اس میں ملوث وکلا کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں اور اس میں ملوث وکلا کے لائسنس منسوخ  کیے جائیں گے۔

وکلا کی ملک گیر ہڑتال

پی آئی سی واقعے میں وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف پاکستان کے بڑے شہروں میں وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ وکلا کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور پاکستان بار کونسل کی اپیل پر ہونے والے اس عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے ہزاروں مقدمات کی سماعت متاثر ہوئی۔

Pakistan Lahore Punjab Institute of Cardialogy nach Angriff von Anwälten
تصویر: picture-alliance/AP/K.M. Chaudary

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ہڑتال کرنے والے وکلا کے مشورہ دیا کہ معاملہ ختم کرنے کے لیے وکلا کی سینیئر قیادت پی آئی سی جائے اور ڈاکٹروں کو گلے لگا کر انہیں پھولوں کا گلدستہ پیش کرے۔ شام کو وکلا کے نمائندے پھول لے کر پی آئی سے گئے۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس کا الٹی میٹم

شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور دیگر طبی اہل کاروں کی مشترکہ تنظیم گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت جمعے کی شام لاہور میں ایک مشعل بردار امن ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے الائنس کے رہنماؤں نے کہا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ان کے مطالبات کے حل کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی تو وہ پیر کے روز اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

پی آئی سی میں ایمرجنسی سروسز بحال

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے شعبہ ایمرجنسی میں دل کے مریضوں کا علاج معالجہ جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اور دیگر سٹاف پی آئی سی پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل پی آئی سی میں ضروری مرمتی کام مکمل کر لیا گیا تھا۔ شہر کے مختلف علاقوں سے مریض پی آئی سی آنا شروع ہو چکے ہیں۔