1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وکی لیکس اور جرمن سیاست

9 دسمبر 2010

وکی لیکس نے جرمن حکومتی حلقوں کو بھی پریشان کیا ہوا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے برلن حکومت پر دباؤ ڈالنے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور دوسری جانب ایک سیاسی جماعت کے ایک اہلکار کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔

https://p.dw.com/p/QU4V
تصویر: dapd

وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج کی گرفتاری بھی اس ویب سائٹ کی سرگرمیوں پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکی ہے۔ مستقل نئے نئے انکشافات سامنےآنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وکی لیکس کی جانب سے شائع ہونے والی تازہ ترین دستاویزات سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ واشنگٹن حکومت برلن انتظامیہ پر مستقل دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایجنٹوں کے خلاف قانونی کارروائی میں عجلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ سی آئی اے کے یہ اہلکار ایک جرمن باشندے خالد المصری کی گرفتاری میں ملوث تھے۔ المصری کو ان اہلکاروں نے دہشت گرد سمجھتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

Wikileaks veröffentlicht Dokumente US Außenpolitik
امریکی سفارت کار جان کُونِج نے جرمن حکومت کو خبردار کیا تھا کہ سی آئی اے کے تیرہ اہلکاروں کے خلاف وارنٹ جاری کرنے میں جلدی نہ کی جائےتصویر: AP

اخبار نیویارک ٹائمز نے وکی لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ برلن میں امریکی سفارت کار جان کُونِج نے جرمن حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر اقدامات اٹھائے جائیں اور اس واقعے میں ملوث سی آئی اے کے تیرہ اہلکاروں کے خلاف وارنٹ جاری کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔

سی آئی اے نے المصری کو 2004ء میں مقدونیا سے گرفتار کیا تھا، جہاں وہ تعطیلات منا رہا تھا۔ بعد ازاں اسے افغانستان منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ چھ ماہ تک زیر حراست رہا۔ اس دوران اس پر تشدد بھی کیا گیا۔

FDP-Maulwurf Helmut Metzner
کوئی خفیہ راز افشا کیا ہے اور نہ ہی غداری کی ہے، ہیلمٹ میٹسنرتصویر: picture-alliance/dpa

خالد المصری کے معاملے کے حوالے سے جرمنی میں یہ قیاس آرائیں کی جا رہی تھیں کہ برلن حکومت امریکی انتظامیہ سے اپنے روابط بگاڑنا نہیں چاہتی اور اسی لئے المصری کے سلسلے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشاف کے بعد اب ان قیاس آرائیوں میں صداقت دکھائی دے رہی ہے۔

وکی لیکس کے انکشافات سے متاثر ہونے والی شخصیات کے نام بھی سامنے آتے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک نام جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کے دفترکے مینیجر ہیلمٹ میٹسنر کا بھی ہے۔ وکی لیکس کے مطابق ہیلمٹ میٹسنرکی امریکی سفارت کاروں سے بہت زیادہ نیاز مندی تھی اور وہ اکثر ملاقاتوں میں امریکی اہلکاروں تک اندر کی باتیں پہنچاتے تھے۔ میٹسنر یہ قبول بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے ایک خط کے ذریعے امریکی سفارت کاروں کو برلن حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

ان انکشافات کے بعد ایف ڈی پی نے41 سالہ میٹسنر کو ان کے عہدے سے الگ کر دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور انہوں نے نہ کوئی خفیہ راز افشا کیا ہے اور نہ ہی غداری کی ہے۔ ایف ڈی پی کے ذرائع نے بتایا ہےکہ ہیلمٹ میٹسنر کے ساتھ کیا گیا معاہدہ فوری طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

Wikileaks veröffentlicht Dokumente US Außenpolitik
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کے دفتر کے مینیجر ہیلمٹ میٹس کو ان کے عہدے سے الگ کر دیا گیا ہےتصویر: dapd

وکی لیکس کے مطابق میٹسنر نے امریکی اہلکاروں کو مخلوط حکومت کے حوالے سے چانسلر میرکل اور گیڈو ویسٹر ویلے کے مابین ہونے والی ابتدائی بات چیت اور اس میں ہونے والی پیش رفت کی تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ میٹسنرکا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی سفارت کاروں کو صرف وہی معلومات پہنچائیں، جو ذرائع ابلاغ میں شائع ہو چکی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ وہ گیڈو ویسٹر ویلے کو آگاہ کئے بغیر امریکی اہلکاروں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ 2004ء سے چل رہا تھا۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں