وکی لیکس مقدمہ: میننگ کے وکیل کا جارحانہ دفاع
17 دسمبر 2011بریڈلی میننگ کے خلاف جمعے کو میری لینڈ کے فورڈ میڈے ملٹری بیس پر شروع ہونے والی سماعت کا مقصد یہ ہے کہ وکی لیکس پر امریکہ کے عسکری اور سفارتی راز افشا کرنے پر ان کا کورٹ مارشل کیا جائے یا نہ۔
میننگ کے وکلاء کی قیادت کرنے والے اٹارنی ڈیوڈ کُومبس نے سماعت کے آغاز کے کچھ دیر بعد ہی جارحانہ دفاع کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت انہوں نے مقدمے کے پریذائڈنگ آفسیر لیفٹیننٹ پاؤل المانزا کو متعصب قرار دیتے ہوئے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ تاہم لیفٹیننٹ المانزا نے ان کے مطالبے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ سویلین زندگی میں محکمہ انصاف کے لیے کام کرنے کے باوجود اس مقدمے کے لیے جزوی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔
کُومبس نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا المانزا کو اس مقدمے کی سربراہی کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے، جو فوج کے ’رکن محفوظہ‘ ہیں اور محکمہ انصاف میں اٹارنی کی حیثیت سے اپنی ملازمت سے چھٹی پر ہیں جبکہ محکمہ انصاف وکی لیکس اور اس کے بانی جولیان آسانج کے معاملے کی جانچ کر رہا ہے۔
کُومبس کا کہنا ہے کہ المانزا نے وکیل صفائی کی جانب سے بیشتر گواہوں کو طلب کرنے کی درخواستیں بھی مسترد کر دی ہیں، جن میں صدر باراک اوباما، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس پہلو کو بھی تعصب کا ثبوت قرار دیا۔
امریکی فوج کے ایک قانونی ماہر نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت میننگ کے مقدمے کا فیصلہ ہفتے کو کر سکتی ہے۔ اسی روز باقاعدہ مقدمے سے پیشر سماعت بھی ہو گی، جو ہفتہ بھر جاری رہ سکتی ہے۔
میننگ پر الزام ہے کہ انہوں نے دو لاکھ ساٹھ ہزار سفارتی پیغامات، امریکی فضائی حملوں کی ویڈیوز اور عراق و افغانستان سے متعلق عسکری رپورٹیں ڈاؤن لوڈ کیں۔ انہوں نے یہ کام اس وقت کیا، جب وہ عراق میں نچلے درجے کے انٹیلیجنس تجزیہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے اور انہوں نے یہ مواد جولیان آسانج کو فراہم کیا۔ آسانج یہ بات بتانے سے انکار کر چکے ہیں کہ انہیں یہ مواد کہاں سے حاصل ہوا۔
میننگ پر سب سے سنگین نوعیت کا الزام دشمن کی معاونت ہے، جو ثابت ہوا تو انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر