وہ ملک جہاں پارلیمان محصور اور حکومت غائب ہوگئی
7 اکتوبر 2020کرغزستان میں اپوزیشن کا صدر سورن بائے جین بیکوف پر الزام ہے کہ انہوں نے اتوار تین اکتوبرکے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے اپنی چند من پسند پارٹیوں کو الیکشن جتوایا۔
پچھلے چند روز میں یہ واضح نہیں کہ اب صدر جین بیکوف خود کہاں ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر ایک 'کورڈینیشن کونسل‘ تشکیل دی ہے، جس نے حکومت کو فارغ کرنے اور نئے انتخابات کرانےکا مطالبہ کیا ہے۔
دارالحکومت بشکیک میں احتجاج اور مظاہرین کے طرف سے پارلیمنٹ سمیت سرکاری عمارتوں پر قبضے کے بعد، اطلاعات ہیں کہ صدر جین بیکوف وہاں سے ملک کے جنوب میں اپنے آبائی صوبے اوش فرار ہو گئے ہیں۔
تاہم ان کے ترجمان نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے اور کہا کہ وہ دارلحکومت میں ہی موجود ہیں۔
کرغزستان وسطی ایشائی ملک ہے جس کی سرحدیں چین، کازغزستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔ ماضی میں بھی عوامی مزاحمت کے باعث دو مرتبہ، سن 2005 اور سن 2010 میں اُس وقت کے صدور کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
'قانونی طور پر اب بھی صدر ہوں‘
منگل کو ایک وڈیو بیان میں صدر جین بیکوف نے کہا کہ حالیہ مظاہرے بعض سیاسی قوتوں کی جانب سے غیرقانونی طور پر حکومت پر قابض ہونے کی کوشش ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ نئے الیکشن کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
ان کے اس بیان کے کچھ دیر بعد کرغزستان کے الیکشن کمیشن نے تین اکتوبر کے انتخابی نتائج کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا۔
صدر جین بیکوف کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر وہ اب بھی ملک کے صدر ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی بحران کے حل کے لیے تمام فریقین کو مذاکرات کے لیے بلائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم ملک میں اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کا صدر جین بیکوف سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
افراتفری اور انتشار
اسی دوران دارالحکومت بشکیک میں حکومت مخالف مظاہرین اور مقامی گروہوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
مظاہرین نے پارلیمان سمیت شہر کی کئی اہم عمارتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم سمیت کئی حکومتی وزرا نے استعفے دے دیے ہیں۔ بشکیک کے میئر سمیت کئی دیگر علاقوں کے منتخب مقامی نمائندے بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔ حکومتی خلا بظاہر ملک کو سیاسی انتشار کی طرف دھکیلتا نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں مظاہرین کو بشکیک کے سرکاری وائٹ ہاؤس میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض مشتعل مظاہرین نے وہاں سے صدر جین بیکوف کی تصاویر اتار کر انہیں جوتوں سے مسلا اور پھاڑ دیا۔ اس موقع پر وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار تعینات نظر نہیں آیا۔ افراتفری کے اس ماحول میں ایک مرحلے پر وائٹ ہاؤس کے کچھ حصوں میں آگ بھی لگ گئی، جس پر بعد میں قابو پا لیا گیا۔
اپوزیشن منقسم
حزب اختلاف کی آٹھ جماعتوں نے متفقہ طور پر اپوزیشن رہنما اداخان مدوماروف کو 'کورڈینیشن کونسل‘ کا چیئرمین منتخب کیا ہے۔ کونسل کا مطالبہ ہے کہ پارلیمان کا ہنگامی اجلاس بلا کر نئے اسپیکر کا انتخاب کیا جائے۔
منگل کو بعض اراکین پارلیمان نے ایک ہوٹل میں اپنا اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی لیکن بیشتر اراکین اس میں نہ پہنچ پائے۔ بعض پاٹیوں کے مطابق اس اجلاس میں پارلیمان کے نئے اسپیکر کا انتخاب عمل میں آیا لیکن کئی اراکین نے اس عمل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ 120 ارکان کے پارلیمان میں سے اس اجلاس میں صرف 20 رکن پہنچ پائے۔ اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے بعد میں دعوی کیا کہ ان کے 67 دیگر ارکان نے رائے شماری کے عمل میں مختار ناموں یا ویڈیو کالز کے ذریعے حصہ لیا۔
اسی دوران، اپوزیشن جماعت 'میکینشل‘ نے قوم پرست رہنما سیدر زاپاروف کو نیا وزیراعظم نامزد کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ انہیں مظاہرین نے چند گھنٹے پہلے ہی جیل سے رہا کرایا تھا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کی اس نامزدگی کی آئینی یا قانونی حیثیت کیا ہے۔