’ویاگرا مشروب‘ سے خبردار رہیں، ماہرین
25 مارچ 2014مبینہ طور پر قوت باہ کو بڑھانے والے اس مشروب کی قیمت دو ڈالر (تقریباﹰ 196 روپے) ہے۔ نائجیریا کے ایک دکاندار اجیبادے کا کہنا ہے کہ اس کا رزلٹ بہت ہی اچھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی فروخت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اجیبادے کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرے زیادہ تر گاہک مزدور وغیرہ ہیں، جو سخت موسم میں بھی سارا دن کام کرتے ہیں اور انہیں رات کے وقت توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
نائجیریا میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر لاگوس اور دیگر شہروں میں جگہ جگہ ’ویاگرا مشروب‘ بیچنے والے خوانچہ فروشوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن لاگوس یونیورسٹی میں فارمیسی کے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ’اولوکیمی اوڈوکویا‘ ایسے مشروبات سے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ ان میں سے بعض مشروبات میں کیمیائی مادے بہت تیز ہوتے ہیں اور یہ آپ کے لیے جگر اور گردوں کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کا علاج نہ صرف مشکل بلکہ مہنگا بھی ہے۔‘‘
جنسی طاقت کا وعدہ
نائجیریا میں نیلے رنگ کی ایک چھوٹی سی ویاگرا کی گولی پانچ سے گیارہ ڈالر کے درمیان فروخت کی جاتی ہے اور یہ ان ہزاروں مزدوروں کی پہنچ سے باہر ہے، جن کی روزانہ کی کمائی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ نتیجے کے طور پر مارکیٹ میں سستی اور متبادل ادویات ملنے لگی ہیں۔ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے ’ویاگرا ڈرنکس‘ کے علاوہ ہمسایہ ملک گھانا سے بھی ’آلومو بیٹرز‘ نامی مشروب درآمد کیا جاتا ہے۔ ان مشروبات میں تقریباﹰ 42 فیصد الکوحل ہوتی ہے اور ان کے استعمال سے جنسی طاقت میں اضافے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں ’جنسی مشروبات‘ پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔
صحت کے خطرات
لاگوس یونیورسٹی میں کلینکل فارمیسی کے سینئر پروفیسر ایڈریمی ولیمز کا کہنا ہے کہ مقامی ’جنسی مشروبات‘ کے فوائد پر آج تک ایک بھی تحقیق نہیں کی گئی ہے لیکن رپورٹوں سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ان کے ممکنہ منفی اثرات سے دل کے دورے، کینسر، انیمیا، بانچھ پن اور شوگر کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
نائیجریا میں نقلی ادویات کا کاروبار ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اندازوں کے مطابق ملک میں بِکنے والی 70 فیصد ادویات نقلی ہوتی ہیں۔ پروفیسر ایڈریمی ولیمز کے مطابق جنسی طاقت بڑھانے والی ادویات کے زیادہ استعمال سے نہ صرف بانچھ پن بلکہ موت کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے استعمال کا مطلب سستی موت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن لاگوس کے ہی ایک مکینک موروف ایڈیمی کا کہنا ہے کہ وہ ان مشروبات کے منفی خطرات کے بارے میں تو نہیں جانتے لیکن ’بیڈ میں ان کی کارگردگی‘ کے ضرور متعرف ہیں، ’’ہم میں سے ہر کسی نے کسی نہ کسی دن ضرور مرنا ہے۔ میں ان کے مضر اثرات پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھے اس وقت خوشی ہوتی ہے جب میری بیوی مجھ سے مطمئن ہو۔‘‘