ویزا فری انٹری یا مہاجرین ڈیل ختم، ترکی کا الٹی میٹم
1 اگست 2016ترک وزیرخارجہ مولوت چاؤس آؤلو نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یورپی یونین نے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی مکمل پاس داری کرے، ورنہ ترکی پر بھی اس پر عمل درآمد لازم نہ رہے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے درمیان رواں برس مارچ میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ترک ساحلوں سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو روکنے کے عوض ترکی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کے باشندوں کے لیے شینگن ممالک کے سفر کے لیے ویزے کی پابندی ختم کر دی جائے گی۔ اس ڈیل میں کہا گیا تھا کہ ترکی یونان جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کو روکے، جب کہ یونان میں موجود مہاجرین کو واپس لے، جس کے بدلے میں ترکی کو تین ارب یورو کی امداد دی جائے گی، تاکہ وہ یہ سرمایہ اپنے ہاں موجود مہاجرین کی بہبود پر خرچ کر سکے۔
خبر رساں ادرے روئٹرز کے مطابق اس معاہدے پر ترکی کی جانب سے عمل درآمد کے باوجود اب تک یورپی رہنما ترک باشندوں کو یورپی ممالک کے سفر کے لیے ویزے کی شرائط ختم کرنے پر متفق نہیں ہو پائے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے ترکی کو مطالبات کی ایک فہرست دی گئی ہے، جس میں انقرہ حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قوانین کو یورپی قوانین سے ہم آہنگ کرے۔ اس کے علاوہ ترکی میں آزادیء رائے اور آزادیء اظہار پر لگائی جانے والی قدغنیں ختم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ ترکی میں بغاوت کی حالیہ ناکام کوشش کے بعد حکومت نے تختہ الٹنے کی اس ناکام سازش کے مبینہ ملزمان کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، جس پر یورپی یونین کی طرف سے تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
چاؤس آؤلو نے جرمن اخبار فرانکفُرٹر الگمائنے سے بات چیت میں کہا کہ اس معاہدے کے بعد انقرہ حکومت کی جانب سے ٹھوس اور سخت اقدامات اٹھائے گئے، جس کی وجہ سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یورپی یونین جانے والے مہاجرین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی۔ ’’مگر یہ پورا معاہدے ہمارے شہریوں کے لیے ویزے کی شرائط کے خاتمے سے نتھی ہے۔ 18 مارچ کے اس معاہدے کا یہ بھی حصہ تھا۔‘‘
پیر کے روز جرمن اخبار میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں آؤلو نے مزید کہا، ’’اگر ویزے کی پابندی ختم نہیں ہوتی، تو ہم بھی مجبور ہو جائے گے کہ مہاجرین کو واپس لینا بھی روک دیں اور 18 مارچ کی یہ ڈیل مکمل طور پر ختم ہو جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’ایسا اکتوبر کے شروع یا وسط تک ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک حتمی تاریخ کی بابت سوچ رہے ہیں۔‘‘