1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وینزویلا: بجلی کا بحران، خواتین ہیئر ڈرائیر کم استعمال کریں

عدنان اسحاق15 اپریل 2016

وینزویلا میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے صدر نکولس مادورو نے غیر معمولی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ توانائی کے بحران اور خشک سالی کی وجہ سے ملکی عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IWXK
تصویر: Reuters/M. Bello

انتیس ملین کی آبادی والے اس لاطینی امریکی ملک کے شہری تقریباً روزانہ ہی پانی اور بجلی کو ترستے ہیں کیونکہ ملک میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے اس ملک کے صدر نکولس مادورو نے کہا،’’ تعلیمی ادارے اور کاروبار پیر 18اپریل کو بند رہیں گے جبکہ منگل کو وینزویلا میں عام تعطیل بھی ہے۔ اسی طرح جون تک ہر جمعے کو بھی چھٹی ہوا کرے گی خاص طور پر سرکاری ادارے بند رہا کریں گے۔‘‘ متعدد صنعتی اداروں کو پیداوار میں کمی کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔ صدر مادورو نے خواتین سے درخواست کی ہے کہ وہ ہیئر ڈرائیر کو صرف خاص مواقع پر ہی استعمال کریں۔

صدر کے مطابق،’’انقلابی اقدامات کرنےکا وقت آ گیا ہے۔‘‘ مادورو نے ملک کے بڑے 15 شاپنگ مالز کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ مادورو کے بقول ان شاپنگ مالز کے مالکان کو پانچ سال قبل کہا گیا تھا کہ وہ جنریٹرز کا انتظام کرتے ہوئے بجلی کی اپنی ضروریات خود پوری کریں۔ ’’اس حکم کی خلاف ورزی کرنے پر ان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔

Venezuela Guri Stausee
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins

اسی طرح سورج کے روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے یکم مئی سے وقت میں بھی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ تاہم اس بارے میں اگلے دنوں میں تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا۔ وینزویلا میں توانائی کے شعبے میں اس ہنگامی صورتحال کا تعلق ملک کے سب سے بڑے ڈیم ایل گوری میں پانی کی قلت سے ہے۔ ملکی توانائی کی ساٹھ فیصد ضروریات اسی ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی سے پوری ہوتی ہیں۔

تیل کی دو لت سے مالا مال یہ ملک گزشتہ کئی برسوں سے شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کئی ماہرین اس بحران کے سلسلے میں کاراکس حکومت کو بھی قصور وار قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا موقف ہے کہ حکومت کو توانائی کی اس قلت کا اندازہ ہو گیا تھا تاہم اس کے باوجود حکام کی جانب سے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس بیان کے مطابق آبادی اور کھپت میں اضافے کے باوجود نہ تو ڈیم تیار کیے گئے اور نہ ہی توانائی کے اضافی مراکز تعمیر کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔