يورپی اسکالرشپ پروگرام : شامی مہاجر طلبا کے ليے اميد کی کرن
2 فروری 2016اردن کے ايک مہاجر کيمپ ميں مقيم شامی پناہ گزين ايحاد زُولگہنا کو چند روز قبل تک کوئی راستہ نظر نہيں آ رہا تھا۔ وکالت کی تعلیم کے دوران اس بائيس سالہ طالب علم نے سن 2012 ميں اپنا ملک چھوڑا تھا۔ اس کے پاس صرف چند ہی راستے تھے، اپنے اہل خانہ کا پيٹ پالنے کے ليے يا تو وہ اردن ميں ايک سپر مارکيٹ ميں ملازمت جاری رکھتا۔ يا پھر خطرناک سمندری سفر طے کر کے يورپ ميں ايک نئی شروعات کی کوشش۔ اگر ايحاد چاہتا، تو اپنے وطن لوٹ بھی سکتا تھا۔
اردن ميں موجود شامی پناہ گزين طلبا کے ليے يورپی يونين کی فنڈنگ سے شروع کيا جانے والا اسکالرشپ کا ايک پروگرام اب ايحاد زُولگہنا اور بہتر مستقبل کے خواب ديکھنے والے کئی ديگر شامی طلبا کے ليے ايک نئی اميد ثابت ہو رہا ہے۔ ابھی اس آزمائشی پروگرام کے تحت 270 طلبا کو مواقع فراہم کيے جائيں گے ليکن پروگرام کی کاميابی کی صورت ميں ايسے سينکڑوں گرانٹس دی جا سکتی ہيں۔
ايحاد زُولگہنا نے پانچ ہزار ديگر شامی طلبا کے ہمراہ اس اسکالرشپ کے ليے درخواست جمع کرائی ہے۔ اس نے اردن کے زرقا کيمپ سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’اگر مجھے يہ اسکالرشپ نہيں ملتی تو آپ مجھے آئندہ موسم گرما ميں جرمنی ميں ديکھيں گے۔‘‘ اردن کی زرقا يونيورسٹی ميں ان دنوں اسکالرشپ کے بارے ميں معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند شامی طلبا کا ہجوم ہوتا ہے۔
شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے۔ اسکالرشپ کا يہ پروگرام اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ بين الاقوامی ڈونرز اب ہنگامی بنياد پر امداد کی بجائے طويل المدتی پروگراموں کو ترجيح دے رہے ہيں، جن ميں اعلیٰ تعليم کے ليے اسکالرشپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ ميں شامی مہاجرين کے ميزبان ممالک ميں ہی ملازمت کے مواقع فراہم کرنا بھی شامل ہيں۔
جمعرات کو لندن ميں شام کے حوالے سے ہونے والی ڈونرز کانفرنس ميں بھی اس بارے ميں بھی بات چيت متوقع ہے کہ تعليم سے محروم ہزاروں، لاکھوں شامی طلبا کے ليے دوبارہ اسکول جانے کا انتظام کس طرح کيا جائے۔ واضح رہے کہ تقريباً 4.6 ملين شامی پناہ گزين اب بھی اردن، ترکی، لبنان اور عراق ميں زندگياں گزار رہے ہيں۔