ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات میں کیا طے پایا؟
16 جولائی 2018فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں ہونے والی اس ملاقات کا ایک طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا صحافیوں کے سامنے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا، ’’اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے وسیع تر اہمیت کے حامل مسائل پر گفتگو کی گئی۔ یہ تعمیری اور مثالی بات چیت تھی۔‘‘ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’اگر ہم دنیا کو درپیش مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعاون کے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ سفارت کاری کو پس پشت ڈالنے کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں۔‘‘
امریکی صدر کی طرف سے اس ملاقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا، ’’اس وقت ہمارے تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن اب چار گھنٹے پہلے یہ صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے حوالے سے بھی براہ راست پوچھا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق صدر پوٹن نے انہیں ہیکرز تک براہ راست رسائی دینے کی بات کی ہے، جو کہ ایک بہت ’بڑی پیش رفت‘ ہے۔
اس ملاقات میں جہادی تنظیموں اور شام کی صورتحال پر بھی گفتگو کی گئی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’ہم نے شامی بحران کی طوالت کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ ہمارے ملکوں کے مابین تعاون سے لاکھوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے یہ بہت واضح کر دیا ہے کہ داعش کے خلاف ہماری کامیابیوں کا فائدہ ایران کو اٹھانے نہیں دیا جائے گا۔‘‘ دونوں صدور نے یہ بھی کہا کہ ان کی پوری کوشش ہو گی کہ شامی خانہ جنگی سے سرحد پار اسرائیلی ریاست متاثر نہ ہو۔ دونوں رہنماؤں نے آئندہ ملاقاتوں اور مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی اس ملاقات کو کامیاب اور کارآمد قرار دیا ہے، ’’ظاہر ہے بین الاقوامی تعلقات میں مشکل ادوار آتے رہتے ہیں۔ سرد جنگ ایک عرصے سے ختم ہو چکی ہے اور بعد کی صورتحال یکساں طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ روس اور امریکا کو اب بالکل مختلف مسائل کا سامنا ہے۔‘‘
ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات، جیت کس کی؟
روسی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات دو طرفہ اعتماد کو بحال کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، ’’جہاں تک شام کا سوال ہے تو وہاں امن کا قیام مشترکہ اور کامیاب تعاون کی پہلی مثال بن سکتا ہے۔‘‘ امریکا نے روس کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یوکرائن میں جنگ بندی کے حوالے سے منسک معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی جبکہ روس نے بھی یوکرائن کو گیس کی فراہمی بند نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکی انتخابات میں مداخلت کے حوالے سے صدر پوٹن نے اپنا پرانا موقف دہراتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا، ’’روس نے بطور ریاست انتخابات میں نہ تو کبھی مداخت کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ طویل المدتی دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کے فلسفے پر بھی بات کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں روسی صدر نے کہا کہ یہ سب افواہیں ہیں کہ روس کے پاس کوئی ایسا مواد موجود ہے، جس سے صدر ٹرمپ کو کسی سمجھوتے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ اقرار کیا کہ وہ چاہتے تھے کہ ٹرمپ صدر منتخب ہو جائیں۔
ا ا / م م ( روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)