ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف بیان، ایشیا میں احتجاج
10 دسمبر 2015دنیا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی سے زائد حصہ پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں رہتا ہے۔ امریکی کروڑ پتی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ امریکا میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دینا چاہیے، ایشیا کے مسلمانوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بنگلہ دیش کے مشہور مذہبی رہنما فرید الدین مسعود کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات داعش جیسی تنظیموں کی راہ ہموار کر رہے ہیں، جو پہلے ہی اسلام اور مغرب کے مابین جنگ کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی مرکزی تنظیم جمعیت علماء کے اس سربراہ کا کہنا تھا، ’’اس طرح کے نفرت انگیز بیانات کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ بالواسطہ طور پر جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور داعش اور اس طرح کی نام نہاد دیگر عالمی عسکری تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا ہے۔ اس ملک کی مسلم جماعت نہضة العلماء سے وابستہ ظہری مصروی کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بیان امریکی ’جمہوریت کو ایک قدم پیچھے کی طرف‘ لے کر گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’قبل ازیں ہم جمہوریت، امن، مساوات اور عدل کے لحاظ سے امریکا کو مثالی سمجھتے تھے۔‘‘
پاکستان میں مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ یہ بیان تشدد کے لیے تیل کے مترادف ہے، ’’یہ بیان مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کا حصہ ہے۔‘‘ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے ٹرمپ کے اس بیان کو ’’سامراجی اور بیمار ذہنیت‘‘ کی نشانی قرار دیا ہے۔
بھارت میں تقریباﹰ دو سو ملین مسلمان آباد ہیں اور اس ملک کے مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ امریکی رہنما کے اس بیان کو ایک اشارہ سمجھا جائے اور یہ کہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر بھی ایک منتخب لیڈر تھا۔ اس اخبار نے نئی دہلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کو بھارت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔
اس بیان نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے افراد نے بھی شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ قبل ازیں برطانیہ کے ہزاروں افراد نے اس امریکی سیاستدان کے برطانیہ داخل ہونے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور اس سلسلے میں ٹرمپ کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط بھی کیے ہیں، جو برطانوی حکومت کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی ہے۔