ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں ’ڈرون حملوں پر بحث‘
14 ستمبر 2015’آئی اِن دا اسکائی‘ نامی فلم میں اکیڈمی ایوارڈ یافتہ خاتون اداکارہ ہیلن میرَن نے ایک کرنل کا کردار ادا کیا ہے، جو لندن کے ایک بَنکر میں بیٹھ کر دنیا کے انتہائی مطلوب ترین مشتبہ دہشت گردوں کا سراغ لگاتی ہیں۔ بعد ازاں امریکی ریاست نویڈا میں لاس ویگاس کی ایک فوجی ایئر بیس میں ڈرون پائلٹ ایرون پال ان مطلوب دہشت گروں کو نشانہ بناتا ہیں۔ اس ایکشن تھرلر فلم میں دیکھایا گیا ہے کہ جہاں ڈرون حملہ کیا جانا ہو، وہاں اگر اچانک کوئی شہری داخل ہو جائے تو صورت حال کیسے پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر گیوِن ہُوڈ کے بقول Eye in the Sky نامی اس فلم میں انہوں نے ڈرون حملوں سے متعلق اُس اخلاقی اور قانونی بحث پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، جو امریکا اور برطانیہ میں ڈرون ٹینکالوجی کے ماہرین میں پہلے سے ہی عام ہے۔ ہوڈ کے بقول یہ فلم مسلح ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی مشتبہ دہشت گرد یا انتہا پسند کی ماورائے عدالت قتل سے جڑے پیچیدہ سوالات تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ناگزیر ہلاکتوں کا موضوع پہلے ہی گرم ہے۔
گیوِن ہُوڈ کے خیال میں دور دراز علاقوں میں بیٹھ کر ڈرون حملے کرنے والے نوجوان پائلٹ، سینسر آپریٹر اور امیجز کا تجزیہ کرنے والے ماہرین بھی نفسیاتی مسائل ہو شکار ہو جاتے ہیں۔ ’آئی اِن دا اسکائی‘ میں بھی دیکھایا گیا ہے کہ ایک نواجون پائلٹ اس وقت کس طرح ایک الجھن کا شکار ہو جاتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ جس مقام پر اسے حملہ کرنے کا حکم ملا ہے، وہاں ایک بچی داخل ہو گئی ہے۔ پائلٹ کو معلوم ہے کہ اگر اس نے ڈرون حملہ کیا تو یہ بچی بھی ماری جائے گی۔ اس سین میں ڈرون پائلٹ کے جذباتی پہلوؤں کی انتہائی عمدہ طریقے سے عکاسی کی گئی ہے۔
گیوِن ہُوڈ کے بقول شہری ہلاکتیں یا فوجی کارروائی کے نتیجے میں شہری نقصان ایک المیہ ہے جب کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسے غیر قانونی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے شک ایسے حملوں میں مجرمان یا جنگی جرائم کے مرتکب مجرمان مارے بھی جائیں لیکن پھر بھی شہری ہلاکتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈچ ڈائریکٹر ڈیوڈ فربیک کی سائیکولوجیکل تھرلر ’فُل کانٹیکٹ‘ میں بھی ڈرون حملوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی ایک اسے ڈرون نیویگیٹر کے گرد گھومتی ہے، جو ایک غلط حملہ کرنے کے بعد نفیساتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس فلم میں ڈرون نیویگیٹر کا احساس جرم دیکھایا گیا ہے۔ فربیک کے بقول ان کی یہ فلم ڈرون ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ’جنگ ہمشیہ ہی بھیانک ہوتی ہے‘۔
فربیک کہتے ہیں کہ ان کی تمام فلمیں ہی بے گانگی کی ایک ایسی کیفیت دیکھاتی ہیں، جس میں مرکزی کردار حقیقت سے دور ہوتا ہے، ’’قتل کرنے کا عمل ایسا آسان ہو گیا ہے کہ آپ سب کچھ اسکرین پر دیکھ اور کر سکتے ہیں۔ قاتل کو خطرات سے دور کر دیا گیا ہے اور وہ کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ صرف ایک بٹں دبا کر ہی کر دیتا ہے۔ اس کے لیے قاتل کا اپنے مقتول کے قریب یا اس کے ٹائم زون میں ہونا بھی ضروری نہیں رہا ہے۔‘‘ فربیک کے مزید کہا، ’’میں صرف یہی چاہتا ہوں کہ لوگ اس بارے میں کچھ سوچیں۔‘‘