ٹوکیو میں برقی کاروں کا منفرد تجرباتی منصوبہ
10 مئی 2010جاپانی دارالحکومت میں چلنے والی ٹیکسیوں کو مرحلہ وار ایسی گاڑیوں میں بدلنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، جو پیٹرول یا گیس کی بجائے برقی توانائی سے چلیں گی۔ ابتدائی مرحلے میں تین الیکٹرک کاریں ٹوکیو کی سڑکوں پر لائی گئی ہیں۔
کیلیفورنیا میں قائم امریکی ادارے ’بیٹر پلیس‘کے مطابق یہ کاریں اپنے اندر نصب ایک لیتھیم آین (lithium-ion) بیٹری کی مدد سے تین سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں، جس کے بعد اِس بیٹری کی جگہ پلک جھپکنے میں مکمل طور پر چارج شُدہ بیٹری لگائی جا سکتی ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ شائی آگاسی نے کہا کہ موٹر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اِسی بناء پر پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث مستقبل میں الیکٹرک کاریں ہی زیادہ سے زیادہ کامیاب اور مقبول ہوں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ چین میں کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ ایسے میں برقی کاروں کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے اور یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاریں بھی اُسی طرح سستی سے سستی ہوتی جائیں گی، جیسے فلیٹ سکرین والے ٹیلی وژن ہوئے ہیں۔
اِس پائلٹ پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ آزمائشی کاروں میں یہ بیٹریاں مختلف جگہوں پر بنے مراکز میں جا کر بدلوائی جا سکتی ہیں۔ اِنہیں ’سُوِچ سٹیشن‘ کہا جاتا ہے۔ پرانی بیٹری نکال کر نئی بیٹری ڈلوانے میں ایک منٹ سے بھی کم وقت صرف ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ منصوبہ الیکٹرک کاروں کے اُن دیگر منصوبوں سے مختلف ہے، جن میں موٹر گاڑیوں کو اکثر پہلےکئی کئی گھنٹوں تک چارج کرنا پڑتا ہے۔
ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی ان ٹیکسیوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے۔ یہ تعداد اُن تمام ٹیکسیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے، جو نیویارک، پیرس اور لندن میں چلتی ہیں۔
ابھی تک ٹوکیو میں بیٹری بدلوانے کا ایک ہی مرکز یا ’سُوِچ سٹیشن‘ہے لیکن اِن تمام ساٹھ ہزار گاڑیوں کو بیٹریاں بدلنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے تین سو مراکز کی ضرورت پڑے گی۔ گویا اِس اعتبار سے منزل ابھی کافی دُور ہے۔ اِس آزمائشی مرحلے کے بعد اِن ٹیکسیوں کا کیا ہو گا، یہ بھی ابھی طے نہیں ہے۔ تاہم ٹیکسیاں چلانے والے ڈرائیوروں نے کہا کہ اپنی اِن برقی گاڑیوں کے ذریعے وہ معاشرے کی بہتری اور بھلائی میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
ادارے ’بیٹر پلیس‘ کے مطابق جاپان میں چلنے والی تمام موٹر گاڑیوں میں سے ٹیکسیوں کی تعداد اگرچہ صرف دو فیصد ہے لیکن وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی اخراج کے بیس فیصد کی ذمہ دار ہیں۔ اِس ادارے کی جاپانی شاخ کے سربراہ کیوٹاکا فُوجی کہتے ہیں کہ ’ٹوکیو الیکٹرک کاروں کا دارالخلافہ بن سکتا ہے۔‘
جاپانی سرکاری اہلکاروں نے امید ظاہر کی کہ دیگر شہروں میں بھی اِسی طرح کے پائلٹ پروجیکٹ شروع کئے جائیں گے۔ جاپان نے تحفظ ماحول کے حوالے سے بھی ایک بڑا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ یہ ملک سن 2020 ء میں اُس مقدار سے ایک چوتھائی کم کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنا چاہتا ہے، جو یہ سن 1990ء میں پیدا کرتا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی