1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیلی کام اسکینڈل، رتن ٹاٹا سے سوال و جواب

5 اپریل 2011

بھارت میں ٹیلی مواصلات اسکینڈل کے حوالے سے معروف صنعت کار رتن ٹاٹا کو ایک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا ہے۔ سابق بھارتی وزیر اے راجا پر موبائل فون سروسز کے لائسنس اپنی من پسند کمپنیوں کو جاری کرنے کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/10nVy
تصویر: UNI

پارلیمانی پینل کے رکن مرلی منوہر جوشی نے بتایا کہ ٹاٹا کمپنی کے مالک سے سوال و جواب کا سلسلہ تین گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس موقع پر پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2008ء میں سامنے آنے والے اس اسکینڈل کے حوالے سےرتن ٹاٹا سے جتنے بھی سوال پوچھے گئے انہوں نے ان کا واضح انداز میں جواب دیا اور معلومات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مُرلی منوہر جوشی کا تعلق بھارت کی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ ٹیلی کام اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے اس تیرہ رکنی پینل میں ارکان پارلیمان سمیت ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہیں۔ جوشی نے یہ نہیں بتایا کہ اس دوران کون سے سوالات کیے گئے اور رتن ٹاٹا نے اس سلسلے میں کیا معلومات مہیا کیں۔

Premierminister Indien Manmohan Singh
ٹیلی کام اسکینڈل نے من موہن سنگھ حکومت کو ہلا کر رکھ دیاتصویر: UNI

آج منگل کے روز یہ پینل ایک اور ارب پتی صنعت کار انیل امبانی سے بھی پوچھ گچھ کرے گا۔ پولیس کی جانب سے تیار کی جانے والی چارج شیٹ کے مطابق سابق وزیر اے راجا نے بھاری رشوت کے عوض ٹاٹا کمپنی اور ٹاٹا ٹیلی سروسزکو بھی لائسنس جاری کیے تھے۔ مقدمے میں سابق وزیر اے راجا، ان کے سیکرٹری، ٹیلی کام کے سابق سیکرٹری اور تین بھارتی کمپنیوں کے سربراہوں پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

پولیس نے اے راجا پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا مقدمہ قائم کیا ہوا ہے تاہم ابھی تک رتن ٹاٹا یا ان کی کمپنی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے شدید دباؤ کے بعد بھارتی حکومت نے ایک 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دینے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ کمیٹی بھی بھارت کی تاریخ کے اس سب سے بڑے مالی اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث افراد سے پوچھ گچھ کرے گی۔ اس اسکینڈل کے باعث قومی خزانے کو تقریباً 40 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : شامل شمس