ٹیکس چوروں کی جنتیں کہاں کہاں، آکسفیم نے فہرست جاری کر دی
12 دسمبر 2016پیر بارہ دسمبر کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں آکسفیم نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں ’ٹیکس چوروں کی جنت‘ کہلانے والے علاقے کارپوریٹ ٹیکس بچانے میں مدد کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں مختلف ’ممالک کو اُن اربوں ڈالر سے محروم کر رہے ہیں، جنہیں غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘۔
اس فہرست میں یوں تو اور بھی بہت سے نام شامل ہیں تاہم برمودا، کے مَین آئی لینڈز، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، آئر لینڈ اور لکسمبرگ کو ’بد ترین ٹیکس ہیونز‘ قرار دیا گیا ہے۔
اس فہرست کی تیاری کے سلسلے میں جن سوالات کو بنیادی اہمیت دی گئی، وہ یہ تھے کہ مختلف ممالک تباہ کن ٹیکس پالیسیاں متعارف کروانے مثلاً کارپوریٹ ٹیکس کی شرح صفر پر رکھنے، غیر منصفانہ اور غیر پیداواری ترغیبات دینے اور ٹیکس چوری کے انسداد کے لیے سرگرم بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے فقدان کے معاملے میں آخر کس حد تک جا سکتے ہیں۔
آکسفیم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اُس کی تیار کردہ فہرست میں چوٹی کی پوزیشنوں پر موجود ممالک بڑے بڑے اسکینڈلز میں ملوث ہیں۔ اس سلسلے میں آکسفیم نے آئر لینڈ کی مثال دی ہے، جس کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبے کی ممتاز امریکی کمپنی ایپل کے ساتھ ٹیکس کے معاملے پر ڈِیل دنیا بھر میں شہ سُرخیوں کا موضوع بنی تھی۔ اس ڈِیل کے تحت اس ادارے کو انتہائی کم شرح یعنی صرف 0.005 فیصد کے حساب سے کارپوریٹ ٹیکس دینے کے لیے کہا گیا تھا۔
آکسفیم کی ٹیکس پالیسیوں سے متعلق خاتون مشیر ایسمی بیرک ہاؤٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کارپوریٹ ٹیکس کی بچت میں مدد دینے والے خطّے ایک ایسے خطرناک حد تک غیر مساوی اقتصادی نظام کے فروغ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، جس کے باعث کروڑوں انسانوں کے لیے ایک بہتر زندگی کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں‘۔
اس برطانوی امدادی ادارے نے کہا ہے کہ ملٹی نیشنل یا کثیرالقومی کارپوریشنز کی جانب سے ٹیکسوں کی چوری کے باعث غریب قومیں اپنے اُن وسائل سے محروم ہو رہی ہیں، جو ’اسکول نہ جانے والے 124 ملین بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے اور حفظان صحت کی ایسی سہولتوں کو ممکن بنانے کے لیے کافی ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہر سال کم از کم چھ ملین بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے‘۔