یورپی یونین ٹیکنالوجی کمپنیوں پر لگام لگانے کے قواعد پر متفق
25 مارچ 2022یورپی یونین کے قانون سازوں نے 24 مارچ جمعرات کے روز دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اختیارات کو کم کرنے اور انہیں اصول و ضوابط کے دائرے میں لانے کے لیے ایک معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔
الفابیٹ کے گوگل، ایمازون، ایپل، میٹا (فیس بک) اور مائیکروسافٹ جیسی بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اس معاہدے کی روشنی میں اب یورپ میں اپنے کاروباری طریقوں میں بنیادی تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
معاہدے کی ضرورت کیوں پڑی؟
یورپی یونین میں 'اینٹی ٹرسٹ' محکمے کی سربراہ مارگریتھ ویسٹیجر نے 'ڈیجیٹل مارکیٹس ایکٹ' (ڈی ایم اے) کی ایک برس قبل تجویز پیش کی تھی۔ یہ ایکٹ ان کمپنیوں کے لیے اصول و قواعد کی تشکیل کرتا ہے جو ڈیٹا اور پلیٹ فارم تک رسائی کو کنٹرول کرتی ہیں۔
اس معاہدے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑی کمپنیوں کا مارکیٹ میں جو غلبہ ہے اس کا چھوٹی حریف کمپنیاں مقابلہ کرنے کی اہل ہو سکیں اور انہیں بھی زندہ رہنے کا ایک بہتر موقع فراہم کیا جا سکے۔
مارگریتھ ویسٹیجر نے ایک بیان میں کہا، ''ہم جو چاہتے ہیں وہ آسان ہے: ڈیجیٹل میں بھی منصفانہ بازار ہو۔ بڑے گیٹ کیپر پلیٹ فارمز نے کاروبار اور صارفین کو مسابقتی ڈیجیٹل مارکیٹوں کے فائدے سے روک دیا ہے۔''
اس معاہدے پر مذاکرات کے آغاز پر یورپی یونین کے کمشنر تھیری بریٹن نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''یہ ڈیجیٹل ریگولیشن کے لیے آخری الٹی گنتی شروع ہوئی ہے۔''
ایکٹ میں کیا شرائط ہیں؟
جس ایکٹ پر اتفاق ہوا اس کے تحت اب کمپنیوں کو کاروباری صارفین کو اپنے ڈیٹا تک رسائی فراہم کرنا ہو گی اور ان کی میسجنگ سروسز کو قابل عمل بنانا ہو گا۔ ڈی ایم اے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ان کی اپنی سروسز کی حمایت کرنے کے عوض صارفین کو پہلے سے انسٹال کردہ سافٹ ویئرز یا ایپس کو ہٹانے یا انہیں ڈیلیٹ کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔
اس ایکٹ کا اطلاق ان کمپنیوں پر ہو گا جن کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 75 ارب یورو سالانہ آمدن کے طور پر ہو، یا پھر ماہانہ جن کے صارفین کی تعداد ساڑھے چار کروڑ کے قریب ہو۔
ڈی ایم اے نے جو اصول و ضوابط مرتب کیے ہیں اگر ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پا یا گیا، تو کمپنیوں کو ان کی سالانہ عالمی آمدنی کا 10 فیصد تک کا جرمانا عائد کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کمپنی نے دوبارہ اسی طرح کا جرم کیا تو اس کو مجموعی آمدنی کا 20 فیصد تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)