پابندیاں تہران کو تنہا کر دیں گی، اوباما
10 فروری 2010اوباما نے کہا کہ ایران کے خلاف سخت ترین پابندیوں کے حوالے سے عالمی طاقتیں تیز اور صاف طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں منگل کے روز ایک بریفنگ میں کہا کہ چھ عالمی طاقتیں تہران حکومت کے خلاف سخت ترین پابندیوں کے سلسلے میں میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے اشارتا یہ بھی کہا کہ امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں روس کو بھی آمادہ کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہے۔
’’ہم اب اگلے کچھ ہفتوں میں ایران کے خلاف سخت ترین اور مؤثر پابندیوں کے سلسلے میں جو کچھ کرنے والے ہیں، اس سے تہران جان جائے گا کہ وہ عالمی برادری میں کس قدر تنہا ہو گیا ہے۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما نے یہ بھی کہا کہ جب تک ایران کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے، اس وقت تک بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی کوشش بھی کی جاتی رہے گی۔ تاہم اوباما کا کہنا تھا کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے تہران حکومت کی موجودہ سوچ ناقابل قبول ہے۔
’’ہم کئی راستوں کا انتخاب کریں گے، جس کا ذکر کئی ممالک کر چکے ہیں، جس سے تہران جان سکے کہ اس کا موجودہ نقطہء نظر قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ گیڈوویسٹر ویلے نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران بامقصد مذاکرات پر آمادہ نہ ہوا تو اسے مزید سخت پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
’’اگر ایران مذاکرات کی دعوت مسلسل ٹھکراتا رہا، تو اقوام متحدہ کی سطح پر بات چیت ناگزیر ہو جائے گی اور تب نئے اقدامات پر بات کرنا پڑے گی۔ ان نئے اقدامات میں پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
دوسری جانب ایران نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے ہاں بیس فیصد تک اعلیٰ افزودہ یورینیم کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ اعلان ایرانی جوہری توانائی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کیا۔ صالحی کے بقول تیار کی جانے والی یورینیم میڈیکل کے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ایران یورینیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اسے اس یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
واضح رہے کہ اس وقت ایران کے پاس تین سے چار فیصد تک افزودہ یورینیم موجود ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لئے نوے سے پچانوے فیصد تک افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔
چار ماہ قبل اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران اور عالمی طاقتوں کے سامنے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے تحت ایران کم افزودہ یورینیم کو روس یا فرانس برآمد کر دے اور پھر اسے ایک برس بعد طبی شعبے میں قابل استعمال حد تک افزودہ یورینیم لوٹا دی جائے۔ ایران کو اس مجوزہ منصوبے پر ٹائم لائن سمیت کئی طرح کے اعتراضات تھے، جس کے بعد یہ مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
جمعے کے روز ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی نے ایک جرمن اخبار کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں سے کسی اہم معاہدے کے انتہائی قریب ہے۔ اس بیان کو امریکہ اور جرمنی نے محض الفاظ کا کھیل قرار دیا تھا۔ اتوار کے روز ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ملکی جوہری توانائی ادارے کو ہدایات دی تھیں کہ اب وہ ملک ہی میں 20 فیصد افزودہ یورینیم کی تیاری شروع کر دے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امجد علی