پارسل بموں کی تیاری: سعودی حسن العصری پر شبہ
1 نومبر 2010امریکی اہلکار نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یمن میں مقیم القاعدہ کے ایک مبینہ بم تیار کرنے کے ماہر اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ابراہیم حسن العصری ان پارسل بموں کی تیاری کے حوالے سے سب سے اہم مشتبہ فرد کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس اہلکار کے مطابق العصری کا ماضی اور دھماکہ خیز مواد کے بارے میں ان کا تجربہ ہی دراصل انہیں ان بموں کے حوالے سے سب سے بڑا مشتبہ شخص بناتا ہے۔
28 سالہ العصری جو کہ ایک ریٹائرڈ فوجی کے بیٹے ہیں، جزیرہ نما عرب میں موجود دہشت گرد القاعدہ گروپ کے سب سے اہم بم بنانے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ امریکی اہلکار کے مطابق اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وہ گزشتہ برس ایک سعودی اہلکار کو ہلاک کرنے کی کوشش اور کرسمس کے موقع پر امریکہ جانے والے ایک ہوائی جہاز میں بم دھماکہ کرنے کے منصوبوں میں شریک رہے ہیں۔
ادھر امریکی صدر باراک اوباما کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینن نے کھوج لگائے جانے والے دو پارسل بموں کے علاوہ یمن سے بھیجے جانے والے کئی دیگر بم کے بارے میں کسی خفیہ اطلاع کی موجودگی سے انکار کیا تاہم انہوں نے اس کے امکان کو رد نہیں کیا۔ برینن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک ملنے والے شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ ان بموں کی تیاری کے پیچھے اسی فرد کا ہاتھ ہے جس نے 25 دسمبر 2009 کو ڈیٹرائٹ جانے والی فلائٹ میں دھماکہ کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے عمر فاروق کی ٹانگوں سے بندھے بم کو تیار کیا تھا۔
جان برینن نے ان پارسل بموں کا کھوج لگانے پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کی تعریف کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے برینن نے اسے ایک بروقت اور ماہرانہ اقدام قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق جان برینن نے دونوں ممالک کے درمیان مثالی تعاون پر امریکی صدر باراک اوباما کا خصوصی تعریفی پیغام پہنچایا۔
دبئی میں کھوج لگائے جانے والے پارسل بم کے حوالے سے قطرایئرویز نے کہا ہے کہ وہ پیکٹ یمن کے دارالحکومت صنعا سے پہلے دوحہ پہنچا اور پھر وہاں سے دبئی۔ اطلاعات کے مطابق پارسل کا یہ سفر ایک مسافر بردار جہاز کے ذریعے طے ہوا۔
دوسری طرف یمن میں ان پارسل بموں کو مبینہ طور پر امریکہ کے لئے بُک کرانے کے الزام میں گرفتار کی گئی طالبہ کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ 22 سالہ حنان السماوی کو ہفتے کے روز صنعا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کا کھوج پارسل بُک کراتے وقت کارگو کمپنی کو دیے گئے موبائل فون نمبر کے ذریعے لگایا گیا تھا۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عابد حسین