پاناما کیس، آغاز سے اختتام تک، کب کیا ہوا؟
28 جولائی 2017تین اپریل سن 2016
پاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی جانب سے پاناما پیپرز کی پہلی قسط جاری ، میاں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق دستاویزات بھی شامل ۔
پانچ اپریل سن 2016
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا دستاویزات پر اپنا موقف بیان کرنے کے لیے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب ۔
دس اپریل سن 2016
پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے شریف خاندان کے ناجائز اثاثوں کا معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں لے جانے کا مطالبہ۔
یکم مئی سن 2016
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ۔
سولہ مئی سن 2016
نواز شریف کا پارلیمنٹ میں اپنے اثاثوں سے متعلق وضاحتی خطاب۔
چوبیس جون سن 2016
پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم کی نا اہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن میں اٹھایا۔
چوبیس اگست سن 2016
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کی جانب سے ملک کی عدالت عالیہ میں وزیر اعظم شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر۔
انتیس اگست سن 2016
نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لیے پی ٹی آئی نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا۔
سات اکتوبر سن 2016
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وفاقی دارالحکومت بند کرنے کا اعلان کیا۔
بیس اکتوبر سن 2016
سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کی دائر کردہ درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے دیا۔
اٹھائیس اکتوبر سن 2016
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور جمالی کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔
یکم نومبر سن 2016
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے ٹی آر اوز طلب کیے۔
سات نومبر سن 2016
نواز شریف کے تینوں بچوں کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کرایا۔
چودہ نومبر سن 2016
تحریک انصاف نے ملک کی عدالت عالیہ میں ثبوت پیش کیے۔
نو دسمبر سن 2016
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ مقدمے کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل۔
چار جنوری سن 2017
وزیراعظم نااہلی ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم کور ٹ کا نیا بنچ تشکیل، جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں مقدمے کی از سر نو سماعت کا آغاز۔
سترہ جنوری سن 2017
نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے عدالت عالیہ میں جواب داخل کرایا۔
چھبیس جنوری سن 2017
قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کا خط سپریم کورٹ میں پیش۔
تیئیس فروری سن 2017
سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ۔
بیس اپریل سن 2017
محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے میں دو جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف نا اہل قرار دے دیا گیا۔
تین ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔
تین مئی سن 2017
پاناما بنچ کی جانب سے چھ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل، ٹیم کو دو ماہ میں تحقیقات ختم کرنے کی ہدایت دی گئی۔
بائیس مئی سن 2017
جے آئی ٹی نے اپنی پہلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔
اٹھائیس مئی سن 2017
نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش۔
انتیس مئی سن 2017
جے آئی ٹی پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد۔
تیس مئی سن 2017
حسین نواز شریف دوبارہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش۔
دو جون سن 2017
حسن نواز نے جے آئی ٹی کے سوالوں کے جوابات دیے۔
تین جون سن 2017
حسین نواز تیسری بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔
چار جون سن 2017
حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی ایک تصویر لیک ہوئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
پانچ جون سن 2017
جے آئی ٹی کو حدیبیہ مل کا ریکارڈ دستیاب، قطری شیخ کے خط پر بھی تحقیقات کا آغاز۔
پندرہ جون سن 2017
نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے تین گھنٹے طویل پیشی۔
سترہ جون سن 2017
نواز شریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش، چار گھنٹے تک سوال جواب۔
انتیس جون سن 2017
نیب کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل امجد جے آئی ٹی کے سامنے پیش۔
تین جولائی سن 2017
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور حسن نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیشی۔
پانچ جولائی سن 2017
مریم نواز شریف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئیں۔
سات جولائی سن 2017
قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی کو سوالات کے لیے اپنے محل یا پھر دفتر آنے کی دعوت۔ پاکستانی سفارت خانے یا پاکستان آنے سے انکار۔
دس جولائی سن 2017
پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔
سترہ جولائی سن 2017
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالتی کارووائی شروع کر دی۔
اٹھائیس جولائی سن 2017
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔
عدالت کی جانب سے نواز شريف اور ان کے بچوں کے حوالے سے نيب ميں ريفرنس دائر کرانے کے احکامات جاری۔