پانامہ لیکس: یورپی یونین بھی ٹیکس چوروں کے خلاف متحرک
12 اپریل 2016’پانامہ پیپرز‘ نے اس امر کو طشت از بام کر دیا ہے کہ کیسے پوری دنیا میں افراد اور کمپنیاں ٹیکس بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے یورپی کمیشن نے اب ٹیکس چوروں کی جنت کہلانے والے علاقوں میں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمیشن کی طرف سے دی گئی تازہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ آئندہ ان بڑی کمپنیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے اندر اور باہر دیے جانے والے ٹیکسوں کی ساری تفصیلات منظر عام پر لائیں۔ ان تجاویز پر عملدرآمد سے پہلے یورپی یونین کے رکن ملکوں اور یورپی پارلیمان کی جانب سے ان کی منظوری ضروری ہو گی۔
ایک اندازے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملکوں کو ٹیکس بچانے کی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہر سال پچاس سے لے کر ستر ارب یورو تک کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یورپی کمیشن نے اس سال کے آغاز ہی میں قوانین کا ایک جامع پیکج پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ بڑی کمپنیوں کو اپنی آمدنی پر ٹیکس وہاں ادا کرنا چاہیے، جہاں وہ آمدنی حاصل کی گئی ہو۔
اپنی تازہ تجاویز میں یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے اندر سرگرم ایسی کمپنیوں کو، جن کے کاروبار کا سالانہ حجم کم از کم 750 ملین یورو ہے، اپنی ٹیکس ادائیگیوں سے متعلق تفصیلات سے نہ صرف متعلقہ محکموں کو آگاہ کرنا چاہیے بلکہ انہیں انٹرنیٹ پر بھی جاری کرنا چاہیے تاکہ ہر کسی کو اس بارے میں پتہ چل سکے۔
پہلے صرف اُن کاروباری سرگرمیوں پر ٹیکسوں کی تفصیلات سامنے لانے کا ذکر تھا، جو یورپی یونین کی حدود میں انجام پاتی ہوں۔ اب کمیشن کی تجاویز کا اطلاق کثیر القومی کمپنیوں کی اُن سرگرمیوں پر بھی ہو گا، جو وہ ایسے علاقوں میں کرتی ہیں، جنہیں عام زبان میں ’ٹیکس چوروں کی جنت‘ کہا جاتا ہے۔
کمیشن کی تازہ تجاویز کے تحت بڑی کمپنیوں کو اپنے ملازمین کی مجموعی تعداد، ٹیکس لگنے سے پہلے اپنی مکمل آمدنی اور ادا کیے گئے ٹیکسوں کی مالیت سے متعلق تمام تر تفصیلات انٹرنیٹ پر جاری کرنا ہوں گی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جرمنی میں تقریباً ایک ہزار دو سو مقامی کمپنیاں ان تجاویز سے متاثر ہوں گی تاہم ان تجاویز کا اصل ہدف ایمیزون اور ایپل جیسی غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔
مالیاتی امور سے متعلق یورپی کمشنر جوناتھن ہِل کے مطابق ٹیکسوں سے متعلق اپنے پیچیدہ انتظامات کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف کسی ایک ملک میں سرگرم کمپنیوں کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی ٹیکس بچا لیتی ہیں۔