1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاپائے روم کے دورہ مشرق وسطیٰ کی اہمیت

رپورٹ: ندیم گل، ادارت: مقبول ملک16 مئی 2009

کلیسائے روم کے سربراہ پوپ بینیڈکٹ کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کئی لحاظ سے اہم رہا۔ پوپ کا منصب سنبھالنے کے بعد بینیڈکٹ شانزدہم کا اس خطے کے لئے یہ پہلا دورہ تھا جبکہ جدید دور میں وہ مشرق وسطیٰ جانے والے تیسرے پوپ ہیں۔

https://p.dw.com/p/Hr3k
پاپائے روم اور محمود عباستصویر: AP

خطے میں مسیحیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلافات اور مشرق وسطیٰ کی موجودہ پیچیدہ صورتحال نے پاپائے روم کے اس دورے کو مزید اہم بنا دیا۔ بینیڈکٹ شانزدہم کے مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کے اس سفر کو تینوں مذاہب کے مابین ہم آہنگی کے فروغ اور خطے میں امن و انصاف کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جارہا ہے۔

پوپ کے بیانات

پاپائے روم نے اپنے اس دورے کے آغاز ہی سے خطے میں جنگوں اور مختلف بحرانوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال پر دنیا بھر کے کیتھولک باشندوں کی طرف سے دلی افسوس کا اظہار کیا: "کیتھولک مسیحی مشرق وسطیٰ کے تمام لوگوں کے مصائب پر دُکھی ہیں۔ "

بینیڈکٹ شانزدہم کے بقول آلام ومصائب کے اس ماحول میں ہمدردی اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل میں فی الحال بڑی رکاوٹیں حائل ہیں تاہم اس عمل سے لاتعداد انسانوں کی اُمیدیں وابستہ ہیں۔

Flash-Galerie Papstbesuch Naher Osten
پوپ اردن کے شاہ اور ملکہ کے ساتھتصویر: AP

مشرق وسطیٰ کے علاقے میں موجودگی کے دوران، اردن، اسرائیل یا پھر فلسطینی علاقوں میں، پوپ نے جگہ جگہ جو بھی بیانات دیئے ،اُن سے یہی ظاہر ہوتا ہےکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ جلد از جلد حل ہو جائے۔ اسی لئے پاپائے روم نے اسرائیل پہنچتے ہی اپنے اولین بیان میں اس تنازعے کے دو ریاستی حل پر ہی زور دیا۔

پوپ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کھل کر حمایت کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے فلسطینی نوجوانوں پر بھی زور دیا کہ وہ بھی تشدد کی سوچ ترک کردیں۔ پاپائے روم نے اس موقع پر اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اُمید ظاہر کی کہ اسرائیلی حکمران غزہ پٹی کے علاقے میں سرحدی گذرگاہیں جلد ہی کھول دیں گے۔

Papst Benedikt in Nazareth Israel
اسرائیلی علاقے ناصرت میں پاپائے روم کی زیرقیادت عبادتی اجتماع کے شرکاتصویر: AP

جرمنی سے تعلق رکھنے والے کلیسائے روم کے سربراہ کے مطابق یہ فلسطینی عوام کا حق ہےکہ ان کی بھی اپنی ایک خود مختار ریاست ہو۔ اسی لئے ویٹیکن بھی خود مختار علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے لئے، انہی کے آباؤ اجداد کی سر زمین پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے، ایک ایسی ریاست جو محفوظ ہو، جسے عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا ہو اور جو داخلی اور علاقائی سطح پر امن کی ترویج بھی کرسکے۔

پوپ نے اپنے اس دورے میں تقریبا ہر جگہ امن اور حصول امن کی کوششوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ان کے اس دورے کا محور اُسی امن کا فروغ ہے جو اسلام، یہودیت اور مسیحیت، تینوں مذاہب کا بنیادی پیغام بھی ہے۔

گذشتہ برس دسمبر میں غزہ پٹی پر اسرائیلی حملوں کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پاپائے روم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اسے غزہ پٹی کی تعمیر نو کے لئے بھرپور عملی مدد کرنا چاہئے۔

بین المذاہبی مکالمت

مسیحیت، اسلام اور یہودیت کے مابین ہم آہنگی کے فروغ میں پاپائے روم کے دورہ مشرق وسطیٰ کے کردار پر پاکستان میں لاہور یونیورسٹی آف Management Sciences کے وزٹنگ پروفیسر ڈاکٹر نعمان الحق سے کہتے ہیں: "یہ تینوں مذاہب تاریخی اور عقائد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے پوپ بینیڈکٹ کے مشرق وسطیٰ جانے کی ایک علامتی حیثیت بھی ہے اور تاریخی بھی۔ "

ڈاکٹر نعمان الحق امریکہ میں پنسلوینیا یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر بھی ہیں۔

ڈاکٹر حق نے مزید کہا:’’علوم کے عربی اور لاطینی پس منظر کا براہ راست رشتہ ہے۔ یونانی علوم عربی میں ترجمہ ہوئے اور عربی سے لاطینی میں۔ عربی علوم میں ایک بنیادی خدمت مسیحیوں اور یہودیوں نے بھی کی جبکہ یونانی علوم کو عربی میں منتقل کرنے کے کام کی سربراہی مسیحیوں نے کی۔ اس میں بہت بڑا نام خنین ابن اسحاق کا ہے جو مسیحی تھے۔‘‘

Papst in der al-Aqsa-Moschee Galeriebild normal
پوپ مسجد اقصیٰ میںتصویر: AP

ڈاکٹر نعمان کہتے ہیں کہ ماضی میں ان تینوں مذاہب کے تعلقات بہت خوشگوار رہے ہیں، یعنی قرون وسطیٰ میں ہولوکوسٹ جیسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیاکیونکہ ان تینوں مذاہب میں بہت ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔

مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ویٹیکن کے تعلقات

پوپ بینیڈکٹ کے اس دورے کو کیتھولک چرچ کے مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ان تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش بھی قرار دیا گیا جو مختلف ادوار میں کشیدہ بھی رہے ہیں۔ ان تینوں مذاہب کے آپس کے تعلقات کیا ہمیشہ ہی سے ایسے تھے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر نعمان الحق کہتے ہیں:’’ابھی چند ماہ قبل ہی ہولوکوسٹ کی نفی کرنے والے برطانوی بشپ ولیمسن رچرڈسن کی بحالی کی وجہ سے اور نازی دور میں ذاتی طور پر ہٹلر یوتھ نامی تنظیم میں شامل رہنے کی بناء پر پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کو یہودی حلقوں میں ایک متنازعہ شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورے کے دوران پاپائے روم نے مسلمانوں کی طرح یہودیوں کے لئے بھی گہرے احترام کے جذبات کا اظہار کیا اور اسرائیل میں ہولوکوسٹ کی مرکزی یادگار کا دورہ بھی کیا۔

پوپ نے نازی سوشلسٹ دور میں یہودیوں کے قتل عام پر کیتھولک چرچ کی طرف سے دُکھ کا اظہار کیا۔ ان کے بقول یہودیوں کو ایک بنیاد پرست اور انتہا پسند نظریے کا شکار بنایا گیا۔ پوپ نے کہا کہ یہودی دشمن سوچ اور رویے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Papst Benedikt vor der Klagemauer in Israel Jerusalem
پوپ بینیڈکٹ ہولوکوسٹ کی یادگار پرتصویر: AP

بعض اسرائیلیوں کے مطابق ہولوکوسٹ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار کے دورے کے موقع پر کلیسائے روم کے سربراہ کی تقریر ان کے لئے تسلی بخش نہیں تھی جبکہ ویٹیکن کے ترجمان نے وضاحت کی موجودہ پوپ نے اپنی نوجوانی میں اگر ہٹلر یوتھ نامی تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی، تو وہ ان کی خواہشات کے برعکس تھی۔

دوسری جانب مسلم حلقوں میں اسلام سے متعلق پاپائے روم کے چند برس قبل دیے گئے ایک بیان پر ناراضگی پائی جاتی ہے، جس کا اظہار بعض مسلم مذہبی شخصیات کی طرف سے پوپ کےدورہ مشرق وسطیٰ کے موقع پر کیا گیا۔

مشرق وسطیٰ کے مسیحی

پوپ بینیڈکٹ نے اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران اسلام اور یہودیت کے ساتھ رومن کلیسا کے بہتر روابط کا ذکر تو کئی مرتبہ کیا لیکن ساتھ ہی اس بارے میں اپنی تشویش بھی ظاہر کی کہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں، مجموعی طور پر اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مسیحی باشندوں کو درپیش حالات بھی، خوش کُن نہیں ہیں۔ اس حوالے سے پوپ نے اسرائیل میں مسیحی اقلیت کی صورت حال کا خاص طور پر ذکر کیا۔