پاک امریکہ باہمی تعلقات، ہیلری کلنٹن کا شکوہ
28 مارچ 2011ہیلری کلنٹن کی طرف سے یہ بیان اتوار کے روز برسلز میں ہونے والی سہ فریقی کانفرس کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے کے بعد اس سہ فریقی اجلاس میں احتجاجی طور شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس ڈرون حملے میں 39 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کلنٹن کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حکومت امداد کے حصول اور اپنے ہی انتہا پسندوں کے خطرے سے نمٹنے کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ ABC نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا،’ پاکستان حکام کے ساتھ باہمی تعلقات ایک چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ ان کے کچھ مسائل ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا،’پاکستان حکومت کے ساتھ تعلقات مشکل اس وجہ سے ہیں کیونکہ وہ خود ایک مشکل پوزیشن پر کھڑی ہے۔ وہ خود یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اندرونی انتہا پسندی کے خطرے سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف مجھے لگتا ہے کہ ہم بات چیت کے لیے اچھے راستے بنا چکے ہیں، ہمارے پاس باہمی تعاون کے بہتر مواقع موجود ہیں۔ لیکن اس معاملے پرہمیں ہر دن کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستانی حکومت ہمارا ساتھ نہ دیتی تو ہم اپنے سفارت کار کو پاکستان سے نہیں نکال سکتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ وہ انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملے کے بعد نہ صرف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس واقعے کی مذمت کی تھی بلکہ امریکی سفیر کو بھی دفتر خارجہ بلا کر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا تھا۔ خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر کا کہنا تھا کہ امریکہ نہ صرف اس حملے کہ وضاحت کرے بلکہ پاکستان سے معافی بھی مانگے۔ پاکستانی خارجہ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور امریکہ پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست نہ سمجھے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ