پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔