پاک بھارت افواج کا جنگ بندی پراتفاق: مبصرین کا محتاط رد عمل
25 فروری 2021جمعرات 25 فروری کو جنوبی ایشا کی دو جوہری طاقتوں کی افواج کے اعلی عہدیداروں کی ہاٹ لائن پر ہونے والی اس گفتگو میں کشمیر کی متنازعہ سرحد پر فائر بندی پر اتفاق کے اعلان کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب گزشتہ مہینوں کے دوران کشمیر کے متنازعہ سرحدی علاقے میں فائرنگ اور جوابی فائرنگ کا سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے اور اس کے نتیجے میں سرحد سے متصل علاقوں کے رہائشیوں میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ جنگ کی سی اس صورتحال نے نہ صرف مقامی باشندوں کی زندگیوں کو پوری طرح مفلوج کر دیا ہے بلکہ دونوں افواج کے مابین آئے دن کی مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔
پاکستان میں ماہرین و تجزیہ نگار کیا کہہ رہے ہیں؟
پاکستان میں مجموعی طور پر دونوں طرف کی افواج کی طرف سے سامنے آنے والے مشترکہ اعلان کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے تاہم مسئلہ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے اس کے دور رس اور پائیدار امن کے لیے حقیقی امکانات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔
کشمیر کے تنازعے پر گہری نظر رکھنے والے اور متعدد زبانوں میں اس تنازعے کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف پاکستانی محقق ڈاکٹر سعید چودھری نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''پاکستان اور بھارت کی افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا تازہ اعلان خوش آئند ضرور ہے تاہم اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ فائر بندی کا کوئی باقاعدہ عالمی معاہدہ نہیں ہے صرف ایک باہمی اتفاق ہے۔ آگے حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں اور اس پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘
کشمیر میں کنٹرول لائن پر تازہ خونریز جھڑپیں، پاکستانی فوجی ہلاک
ڈاکٹر سعید چودھری کا مزید کہنا ہے کہ جب تک بھارت کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیتا اور اُس عالمی معاہدے کی پابندی نہیں کرتا، جس کو دہائیوں پہلے طے کیا گیا تھا، تب تک علاقے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا،''صرف زبانی کلامی باتوں سے یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘
مشترکہ اعلان
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ ہاٹ لائن پر دونوں ممالک کی افواج کا رابطہ ہوا ہے اور مشترکہ طور پر اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ امن کی خاطر دونوں ممالک مل کر اُن دیرینہ مسائل کا حل تلاش کرنے اور دونوں طرف پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنے کی ممکنہ کوششیں کریں گے، جو اس خطے میں عدم استحکام کا باعث ہیں۔
اُدھر نئی دہلی کے حکومت کے ایک اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے اس پیش رفت کے بارے میں کہا کہ متنازعہ سرحد پر چلی آ رہی کشیدگی کا خاتمہ جزوی طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس علاقے میں آباد شہریوں کی صورتحال کافی خراب ہے اور اس صورتحال میں بہتری کے لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
غیر ملکی سفارت کار کشمیر کے دورے پر
بھارتی اہلکار کا مزید کہنا تھا،'' ہم انتہائی محتاط انداز میں پُر امید ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر تشدد کی سطح اور کشیدگی کی شدت میں اس سے کمی آئے گی۔ اس اہلکار نے اس معاملے کی حساسیت کے سبب اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
لائن آف کنٹرول اور بھارت کا موقف
یہ امر اہم ہے کہ بھارتی اہلکار نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نئی دہلی حکومت لائن آف کنٹرول پر فوجی تعیناتی میں کمی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر وادی میں دراندازی یا انسداد بغاوت آپریشنز کو روکا جائے۔ گزشتہ موسم گرما میں بھارتی اور پاکستانی فوجی دستوں کی مسلح جھڑپیں جتنے تواتر سے ہوئیں اُس کی مثال گزشتہ دو برسوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کو کورونا وبا میں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
لائن آف کنٹرول پرامن کے بارے میں ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کا اتفاق کس امر کی طرف نشاندہی ہے؟ ڈوئچے ویلے نے یہ سوال کیا اسلام آباد کے ایک سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار اعزاز سید سے تو ان کا جواب تھا،'' یہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل ریورس گیئر سے نکل کر نیوٹرل گیئر میں چلا گیا ہے۔ ایسا سب کچھ کسی پس پردہ کوشش کے بغیر نہیں ہوا ۔ ایک چیز جو واضع نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر میں مداخلت کے بارے میں پاکستان پر الزامات کچھ عرصہ سے بند ہیں ۔‘‘
اعزاز سید نے مزید کہا،''پاکستان کی جانب سے سکھوں کے لیے سرحد کھولنے کا عمل بھی بہرحال ایک مثبت قدم تھا جسے اس وقت بھارت نے قبول تو کیا مگر سراہا نہیں۔ حالیہ پیشرفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی سطح پر امن مذاکرات اب اگلا قدم ہوں گے، جس کے لیے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے اتفاق نے ایک ماحول پیدا کردیا ہے ۔‘‘
یاد رہے کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے لیے 2003ء میں ایک 'سمجھوتا‘ طے پایا تھا مگر 2014 ء میں ایل او سی پر جنگ بندی سمجھوتے کی خلاف ورزیوں میں غیر معمولی تیزی پائی گئی۔ گزشتہ اگست میں بھارت کی جانب سے کشمیر کے خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے نئی دہلی حکومت کے اعلان کے بعد کشمیر کا متنازعہ علاقہ آگ و خون کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔
کشور مصطفیٰ