پاک بھارت تعلقات میں پگھلتی ہوئی برف
16 جون 2009یورال پہاڑیوں کے دامن میں واقع روس کے صنعتی اور پانچویں سب سے بڑے شہر ایکترن برگ میں شنگھائی تعاون تنظیم یعنی SCO اور برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین پر مشتمل تنظیم BRIC کی چوٹی کانفرنس ختم ہوگئی لیکن ان دونوں چوٹی کانفرنس کے دوران سب کی نگاہیں بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات پر لگی ہوئی تھی۔
اسے بھارت اور پاکستان کے سربراہان حکومت کے درمیان باہمی تعلقات کی بحالی کا غیر متوقع اور ڈرامائی انداز ہی کہاجاسکتا ہے۔ یہاں حیات ہوٹل کے ہال روم میں جیسے ہی صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کا خیرمقدم کیا ڈاکٹر سنگھ نے میڈیا کی موجودگی میں چھوٹتے ہی کہا کہ” میرے عوام نے مجھے آپ سے یہ کہنے کا مختار بنایا ہے کہ پاکستانی سرزمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔“
آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے مصافحہ کیا اور میڈیا کے لوگوں کو وہاں سے چلے جانے کی درخواست کی۔ دونوں رہنماوں نے بعد میں بند کمرے میں 40 منٹ تک بات چیت کی ۔ جب ڈاکٹر سنگھ کمرے سے باہر نکلے تو آصف زرداری نے میڈیا سے کہا کہ براہ کرم انہیں جانے دیں۔ خیال رہے کہ دونوں رہنما شنگھائی تعاون تنظیم اور BRIC کی میٹنگوں میں شرکت کے لئے یہاں آئے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر سنگھ اور زرداری کی ملاقات کے فوراََ بعد بھارتی خارجہ سکریٹری شیو شنکر مینن نے کہا کہ دونوں رہنما خارجہ سکریٹری کی سطح پر تعلقات کو بحال کرنے پر متفق ہوگئے ہیں لیکن بات چیت فی الحال صرف دہشت گردی تک مرکوز رہے گی۔ دونوں خارجہ سکریٹری مصر کے شہر شرم الشیخ میں جولائی کی وسط میں ہونے والی چوٹی کانفرنس سے پہلے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کی تشویش پر پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات پر غور وخوض کیا جائے گااور دونوں ملکوں کے رہنما اس کا جائزہ لیں گے۔ اسی میٹنگ میں دونوں ملکوں کے مابین امن مساعی کو بحال کرنے اور اس کی تفصیلات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مینن کا کہنا تھا کہ ”دونوں ملکوں میں بات چیت شروع ہوگئی ہے لیکن مذاکرات کا عمل شروع نہیں ہوا ہے“۔ انہوں نے کہا: ” یہ بات چیت صرف دہشت گردی تک محدود رہی اور یہ ایک غیرسرکاری بات چیت تھی“۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ جب ا ن سے پوچھا گیا کہ کیا ڈاکٹر سنگھ کا لہجہ درشت تھا ، تو انہوں نے کہا ایسا کچھ نہیں تھا اور دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا : ” سب سے زیادہ سمجھداری کی بات یہ ہوگی کہ مذاکرات کو جلد از جلد بحال کیا جائے۔ یہ ہم دونوں کے مفاد میں ہے۔ مذاکرات بحال ہونے سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہوگا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ ایک مفید قدم ہے“۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے جامع مذاکرات کے ذریعہ پیش رفت کی تھی ۔ اس کی رفتار سست تھی لیکن بہر حال سلسلہ جاری تھا۔ جنوبی ایشیا کے عوام کو اس سے یقیناََ فائدہ ہوگا“۔ قریشی نے کہا کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ لعنت صرف کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہئے اور خواہ یہ بھارت‘ پاکستان‘ امریکہ یا برطانیہ۔۔۔ کہیں بھی موجود ہو اس کے خلاف جنگ کی جانی چاہئے۔
جب پاکستانی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں امن کے قیام کے لئے بھارت اور پاکستان کو مل کر کوششیں نہیں کرنی چاہئے تو قریشی نے کہا : ”اس معاملے میں علاقائی نظریہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ علاقے کے تمام ممالک تعاون کرسکتے ہیں اور کرنا چاہئے۔ ہم یہاں بھارت کے ساتھ اپنے مسائل کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں“۔
جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی رہائی کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی عدلیہ آزاد ہے اور ہمیں اس کی آزادی کا احترام کرنا چاہئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت حافظ سعید کو رہا کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی تو قریشی نے کہا کہ اپیل کا حق برقرار ہے اور صوبائی حکومت اس پر غور کررہی ہے۔
افتخار گیلانی‘ ایکترن برگ ، روس
ادارت: عاطف بلوچ