پاک، بھارت مذاکرات کی کامیابی مشروط!
5 مارچ 2010بھارتی پارلیمان میں اپنے خطاب کے دوران من موہن نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حامی ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنے زیر انتظام علاقوں کو بھارت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے۔
ڈاکٹر سنگھ کے اس بیان سے محض ایک روز قبل پاکستان کی جانب سے نئی دہلی کو مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے متعلق ایک لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل، ممبئی حملوں کے بعد پہلی بار منعقدہ دو طرفہ خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات میں رابطے قائم رکھنے پر اتفاق ہوا تھا تاہم اگلی ملاقات کی تاریخ طے نہیں ہوسکی تھی۔
پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے نئے لائحہ عمل سے متعلق من موہن نے اپنے خطاب میں کوئی واضح بات نہیں کی البتہ یہ ضرور کہا کہ رابطے قائم رہنے چاہیے، رابطے نہ ہونے سے ہی غلط فہمیاں بڑھتی ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جانے پر کی گئی تنقید کے جواب میں تسلیم کیا کہ اس سلسلے میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،:’’ پوری عالمی برادری پاکستان کے ساتھ بات چیت کررہی ہے، ہمارے اُن سے بات نہ کرنے سے وہ اکیلے نہیں ہو جائیں گے‘‘۔
اسلام آباد حکومت کو شکایت ہے کہ بجائے جامع امن مذاکرات کرنے کے نئی دہلی، ممبئی کے معاملے پر ہی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ نئی دہلی کا اس حوالے سے مؤقف ہے کہ پاکستان نے اب بھی دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کرنے کے لئے کافی اقدامات نہیں کئے۔
حالیہ کچھ عرصے میں شورش زدہ افغانستان میں بھی پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے کردار پر شاکی ہیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ افغانستان میں تعمیر نو کے سلسلے میں بھارت کا شمار سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت کشور مصطفیٰ