پاک بھارت ميچ: سرفراز کے ليے ایک بار پھر موقع، دھوکہ نہ دینا
15 جون 2019سن 2015 میں آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں پاک بھارت میچ سے چند ہفتے قبل ایک بھارتی ٹی وی چینل نے ايک اشتہاری مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں ‘موقع موقع' کے بول کے ساتھ ایک دھن استعمال کی گئی تھی۔ اس کمرشل کی دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک پاکستانی نوجوان ورلڈ کپ میں ہر پاک بھارت ٹاکرے کے بعد پاکستان کی جیت کے بعد جشن منانے کے لیے پٹاخے چلانے کا انتظار کر رہا ہے، لیکن نہ کبھی پاکستان میچ جیت سکا اور نہ ہی اس کو پٹاخے چلانے کا موقع ملا۔
یہ کمرشل تو ہم سب نے دیکھا ہے لیکن مجھ سميت انیس سو اسی کی دہائی کے اواخر ميں پیدا ہونے والی جو پاکستانی نسل ہے، ان کو یہ کہانی ضرور دل سے لگتی ہوگی۔ کم از کم میرے ذاتی جذبات ورلڈ کپ میں ہر پاک بھارت ٹاکرے کے بعد بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے اس کمرشل میں دکھائے گئے نوجوان کے تھے۔ شاید بظاہر آتش بازی کا مواد نہیں ہوتا تھا لیکن من میں ہر مرتبہ انتظار رہتا ہے کہ بس آج پاکستان جیت جائے اور خوب جشن منایا جائے۔
آئيے ورلڈ کپ کی تاریخ میں پاکستان اور بھارت کے مابين کھيلے گئے چھ مقابلوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ان میچز کے حوالے سے ہماری یادیں 'موقع موقع‘ ٹی وی کمرشل میں دکھائے گئے پاکستانی مداح سے کتنی ملتی ہیں۔
1992ء: آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے پانچویں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے وقت میری عمر قریب چھ برس تھی۔ يہی وجہ ہے کہ براہ راست میچز سے زیادہ میں نے پہلے 'وی سی آر' اور پھر یو ٹیوب پر میچز کی ریکارڈنگز دیکھی ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں استعمال کی گئی رنگین جرسیاں اور ٹراؤزرز، وہ لمحات جب عمران خان نے ورلڈ کپ ٹرافی وصول کی، فائنل میں وسیم اکرم کی دو وکٹیں، رمیز راجا کا کیچ اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف انضمام کا کَور پر چھکا نہ بھولنے والی یادیں ہیں۔ چونکہ ہم پاکستان اور بھارت کے مابین ورلڈ کپ مقابلوں کی اہم یادوں کا ذکر کر رہے ہیں، تو سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی بلے باز جاوید میانداد کا بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے کی غیر ضروری اپیلوں سے تنگ آکر ان کی نقل کرتے ہوئے ہوا میں اچھلنا یقیناً سب کو یاد ہوگا۔ یہ گروپ میچ بھارت نے جیت لیا تھا لیکن 1992ء کے فائنل میں پاکستان کی کامیابی اتنی بڑی تھی کہ بھارت کے خلاف شکست ذہن میں جگہ نہیں بنا سکی۔
1996ء: چار سال بعد ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان اور بھارت نے کی۔ بھارتی شہر بنگلور، پاکستان اور بھارت کا کوارٹر فائنل، پاکستانی اوپنر عامر سہیل نے بھارتی بالر وینکاتیش پرشاد کی گیند پر چوکا لگا کر اپنے بلے کے ساتھ بالر کی طرف اشارہ کیا۔ میرے خیال میں انہوں نے کہا تھا کہ 'میدان کے اس اس طرف چوکے ماروں گا۔‘ بطور پاکستانی شائقین دل ایک دم گارڈن گارڈن ہوگیا، لیکن اگلی ہی گیند پر عامر سہیل صاحب اپنی وکٹ نہ سنبھال سکے اور 'اوور کانفیڈنس' کا مظاہرہ کرتے ہوئے آؤٹ ہو کر پویلین کی طرف روانہ ہوگئے۔ بھارت نے یہ میچ جیت کر سیمی فائنل کے ليے کوالیفائی کر لیا تھا اور ہم پاکستانی شائقین کا مایوسی نے اس مرتبہ بھی دامن نہ چھوڑا۔
1999ء: آٹھ جون مانچیسٹر، ورلڈ کپ سوپر اسٹیجز کا چوتھا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ بھارت نے پاکستان کو 227 رنز کا ہدف دیا لیکن پاکستان حسب معمول اپنی ناقص بلے بازی کی وجہ سے یہ میچ بھی ہار گیا۔ میں اس ٹورنامنٹ میں شعیب اختر کی تیز گیند بازی کا مداح تھا۔ میچ شروع ہوتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا، 'شعیب اختر کھیل رہا ہے، سعبی نے کتنے آؤٹ کیے؟‘ خیر ورلڈ کپ کے اس میچ میں شعیب اختر کو کافی مار پڑی تھی۔ اس مرتبہ بھی چونکہ پاکستان فائنل تک پہنچا تھا تو پھر سے بھارت کی ہار کا ذہن پر زیادہ اثر نہ ہوسکا۔
2003ء: یکم مارچ جنوبی افریقہ کا سنچوریئن گراؤنڈ۔ اس مرتبہ میری عمر تقریباً بیس برس ہوچکی تھی لیکن اس دہائی سے زائد عرصے میں ٹیم پاکستان کو چار ورلڈ کپ مقابلوں میں بھارت سے چوتھی مرتبہ بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میچ کی یاد میں تو بس اتنا ہی لکھوں گا کہ بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر اور وریندر سہواگ نے وسیم، وقار، شعیب اور رزاق کی خوب پٹائی کی۔ سچن نے شعیب کی ایک وائڈ شارٹ بال پر تھرڈ مین کی جانب چھکا مار دیا اور بھارتی ٹی وی چینلز کو پرومو کے لیے سدا بہار شارٹ مل گیا۔ اس میچ کے بعد بھارتی بلے بازوں کو اعتماد ملا کہ وہ جنوبی افریقہ کی وکٹس پر پاکستان کے تیز گیند بازوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
2007ء: ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں پاک بھارت ٹاکرا نہ ہوسکا کیونکہ اس ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیموں کو گھر واپس جانے کی جلدی تھی۔ علاوہ ازیں ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کوچ باب وولمر بھی انتقال کر گئے تھے۔
2011ء: بھارت کے شہر چندی گڑھ میں ورلڈ کپ کا دوسری سیمی فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ ان دنوں میں برلن، جرمنی منتقل ہوچکا تھا۔ بھارت، پاکستان اور جرمنی کے چند دوستوں نے ایک ساتھ مل کر یہ سیمی فائنل دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ میچ کے دوران جب انڈیا کی بیٹنگ تھی تو ہمارے بھارتی دوست پریشان تھے، خاص طور پر اس وقت جب وہاب ریاض نے یووراج سنگھ کو پہلی گیند پر عمدہ یارکر کے ساتھ پویلین واپس بھیج دیا۔ ہم تو خوشی سے اچھل رہے تھے۔ مگر یہ خوشی زیادہ دیر نہ چلی اور دنیا کے بہترین بلے باز سچن ٹنڈولکر نے بھارت کی جیت میں ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کیا۔ اس میچ میں شعیب اختر کی بہت کمی محسوس ہوئی اور بد قسمتی سے اس میچ کے بعد انہوں نے ریٹائرمینٹ کا بھی اعلان کر دیا۔ میچ کے بعد بھارتی دوستوں نے خوب جشن منایا اور ہم اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دکھ بھری مبارک باد دے رہے تھے۔ اس محفل میں چند غیر ملکی دوستوں کو کرکٹ کی بالکل سمجھ نہ تھی لیکن یہ بات سمجھ آگئی کہ جب انڈیا پاکستان مدمقابل ہوتے ہيں، تو ماحول ایک دم ٹینس ہوجاتا ہے۔
2015ء: آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں پاکستان کا پہلا میچ ہی بھارت کے خلاف تھا۔ اس مرتبہ بھارتی شائقین زیادہ پریشان تھے کیونکہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام میچ کھیلنے والے سچن ٹنڈولکر ریٹائر ہو چکے تھے اور ہم بطور پاکستانی شائقین بہت زیادہ پر امید تھے کہ شکر ہے اب ٹنڈولکر نہیں کھیل رہا۔ مگر، اس وقت تک ویراٹ کوہلی کی شکل میں بھارت کا ایک اور سپر اسٹار بلے باز تیار ہوچکا تھا اور پاکستان کے خلاف سینچری کے ساتھ ویراٹ کوہلی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں۔ علاوہ ازیں مصباح الحق کی کپتانی میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں زیادہ کچھ قابل ذکر نہيں تھا۔ ہمیشہ کی طرح ورلڈ کپ میں بھارت سے چھٹی شکست کھانے کے بعد اگلے دن خاموشی سے بھارتی دوستوں کی باتیں سن رہے تھے۔
2019ء کے ورلڈ کپ میں سولہ جون کو ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا ہونے جا رہا ہے۔ سچ کہیں تو بھارتی ٹیم زیادہ مضبوط ہے اور ان کی پرفارمنس بھی بہت اچھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ٹیم ہے، جس کے کھلاڑی ایک میچ جیتنے کے بعد میڈیا میں بڑے بڑے بیان تو دیتے ہیں لیکن اگلا میچ ہارنے کے بعد شرمندگی کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ بحر حال، 'موقع موقع' اشتہار کی طرح پٹاخے اس مرتبہ بھی تیار ہیں، دیکھتے ہیں، کیا اس بار سرفراز احمد کی ٹیم ہمیں ان پٹاخوں کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے یا پھر۔۔۔