پاکستان الیکشن: فیصلے کی گھڑی قریب آن پہنچی
7 فروری 2024روایتی جوش و خروش سے عاری ان انتخابات میں پاکستانی ووٹرز کو اپنی قیادت کے انتخاب کا کس قدر آزادانہ اور منصفانہ موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب ملنے میں چند گھنٹے ہی رہ گئے ہیں۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے ملک بھر میں تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز پر انتخابی سامان اور عملہ سخت سکیورٹی میں پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کے انتخابی عمل میں آزادی اور شفافیت کی کمی پر امریکہ کو تشویش
کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشنز اور 2 لاکھ 66 ہزار 398 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ ان عام انتخابات میں 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار سے زائد افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں 16 ہزار 766 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جبکہ 29 ہزار 985 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر پاک فوج کے اہلکار بھی تعینات ہوں گے۔ کئی شہروں میں فوج کا فلیگ مارچ بھی شروع ہو گیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتخابات اگر منصفانہ نہ ہوں تو یہ محض ایک رسم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اس سے ملک کو جمہوریت کے حقیقی ثمرات نہیں ملتے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ زیادہ امکانات ہیں کہ پولنگ والے دن 75 فی صد سے زائد انتخابی عمل منصفانہ ہی ہوگا کیوں کہ پولنگ والے دن دھاندلی کرنا آسان نہیں ہوتا: ''اصل کام پیلے ہی ہو چکا ہے۔ جب آپ ایک پارٹی سے انتخابی نشان ہی لے لیں تو پھر اس میں مقابلہ کرنے کی حقیقی سکت باقی نہیں رہتی۔‘‘
منگل اور بدھ کی درمیانی رات انتخابی مہم کے خاتمے کے بعد اب ملک کے سیاسی محاذ پر ایک طرح سے خاموشی ہے۔ سیاسی جماعتیں پولنگ ایجنٹس مقرر کرنے اور انہیں تربیت دینے میں مصروف ہیں۔ لاہور سے الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار برائے قومی اسمبلی رانا جاوید عمر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے ایک ایک پولنگ اسٹیشن پر تین تین پولنگ ایجنٹسوں کے نام دیے ہیں تاکہ ایک کی گرفتاری کی صورت میں دوسرا ڈیوٹی دے سکے۔ پی ٹی آئی نے اپنے ووٹروں کی مدد کے لیے ایک ہیلپ لائن بھی شروع کی ہے جس سے ووٹروں کو اپنی امیدواروں اور ان کے نشانات کے حوالے سے مدد مل رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ پاکستان کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کامیابیوں کی دعویدار ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم میں کافی سرگرم نظر آئی۔ البتہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے مواقع نہیں ملے۔پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے کئی امیدواروں کو الیکشن سے دستبردار بھی ہونا پڑا۔ اب عام تاثر یہ ہے کہ سب سے بعد میں انتخابی مہم میں اترنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پولنگ سے ہفتوں پہلے تک الیکشن غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھے۔ یہ انتخابات اس وقت متنازعہ صورت اختیار کر گئے تھے جب ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پری پول دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی یک طرفہ انتقامی کارروائیوں پر 'لیول پلینگ فیلڈ‘ نہ ہونے کا شکوہ کیا تھا۔ اس جماعت نے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی آن لائن انتخابی مہم شروع کی جس کو پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش یا رفتار کی کمی کا سامنا رہا۔ الیکشن کے حوالے سے عدالتوں میں بھی مقدمات کی بھرمار رہی۔ لاہور میں ووٹوں کی خریدو فروخت کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں۔