1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت: بین الاقوامی سطح پر’سفارت کاری کی جنگ‘

عبدالستار، اسلام آباد19 ستمبر 2016

نئی دہلی اور اسلام آباد حکومت کے درمیان گزشتہ چند مہینوں سے بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں حالات کی وجہ سے کشیدگی چل رہی ہے لیکن اتوار کو اُڑی میں ہونے والے حملے نے اس کشیدگی کو سرد جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1K4qB
Kaschmir Srinagar Protest
تصویر: Reuters/D.Ismail

آج اس سرد جنگ میں شدت اس وقت پیدا ہوئی، جب پاکستانی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر شائع کی کہ علیحدگی پسند بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی بھارت میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ پاکستانی وزیرِ اعظم میاں نواز شریف امریکا گئے ہوئے ہیں، جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بدھ کو خطاب کریں گے اور مسئلہ کشمیر بھی ان کی تقریر کا حصہ ہوگا۔ دوسری جانب بھارت نے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی فورم پر اٹھانے کی دھمکی دی ہے۔ اس صورتِ حال نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔
بھارت میں کچھ سخت گیر حلقے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی باتیں کر رہیں ہیں تو پاکستان میں ذرائع ابلاغ تواتر کے ساتھ بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر نئی دہلی مخالف رائے عامہ ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارت بلوچستان کا مسئلہ بین الاقوامی فورم پر اٹھا سکتا ہے لیکن کشمیر اور بلوچستان میں کوئی بڑی مماثلت نہیں ہے۔ کشمیر میں گزشتہ کچھ مہنیوں میں پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو گرفتار اور زخمی کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا وہاں داخلہ بند ہے، وہ پوری ایک آزادی کی تحریک ہے لیکن بلوچستان میں کوئی بڑی آزادی کی تحریک نہیں ہے۔ اگر بھارت یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھاتا ہے تو اس سے اس مسئلے کو بین الاقوامی رنگ تو مل جائے گا لیکن خطے میں ایران و چین اس مسئلے پر پاکستان کی حمایت کریں گے۔ آزاد بلوچستان کی تحریک ایرانی بلوچستان کو بھی متاثر کرے گی اور کیونکہ چین بلوچستان کی وجہ سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ پاکستان کی تمام عالمی فورموں پر حمایت کرے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ سوچ ہے کہ امریکا پاکستان کی توڑ پھوڑ چاہتا ہے۔ سی آئی اے نے پندرہ سال پہلے اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی۔ حال ہی میں ایک امریکی سینیٹر نے بھی سندھ اور بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی بات کی ہے ۔ اب اگر بھارت بھی بلوچستان کے حوالے سے بولے گا تو پاکستان میں اس خیال کو تقویت ملے گی کے بھارت بھی پاکستان کو توڑنے کی سازش کا حصہ ہے لیکن پاکستانی ریاست کی تقسیم بھارت اور چین کے لئے بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ بھارت میں کئی علیحدگی پسندی کی تحریکیں چل رہی ہیں جب کہ چین بھی اس مسئلے سے دوچار ہے۔‘‘
پاکستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کے لئے کام کرنے والے قدیر بلوچ المعروف ماما قدیر اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان میں کوئی مماثلت نہیں ہے اور یہ کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہورہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کیا یہاں بلوچ سیاسی کارکنان کی آنکھیں نکالی نہیں جارہی؟ کیا یہاں ہزاروں لوگوں کو قتل نہیں کیا گیا؟ کل بھی ہمیں دو نامعلوم لاشیں ملی ہیں، آٹھ سے دس ہزار کے قریب مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جب کہ تیس ہزار کے قریب افراد لا پتہ ہیں۔ کشمیر میں تو پیلٹ گنیں چلائی جا رہی ہیں، یہاں تو فورا فائر کیا جاتا ہے۔ وہاں سیاسی کارکنان کو پولیس گرفتار کرتی ہیں۔ یہاں تو ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا کر غائب کر رہی ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں، یہاں اگر دس افراد بھی مظاہرے کے لیے نکل جائیں تو دوسرے دن وہ غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس سوال پر کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے، ماما قدیر نے کہا،’’ہمیں آزادانہ طریقے سے جلوس نکالنے دیں، جلسے کرنے دیں، میڈیا کے سامنے اپنی باتیں رکھنے دیں، کسی کو غائب نہ کریں پھر آ پ کو پتہ چلے گا کہ آزادی کی تحریک سے لوگوں کی کتنی وابستگی ہے، یہاں خوف کا ماحول ہے۔‘‘
بھارت کی طرف سے بلوچستان کے مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کے سوال پر ماما قدیر نے کہا، ’’کشمیر کا مسئلہ تو ساٹھ ستر سال کا ہے، ہمارا مسئلہ انگریزوں کے دور سے ہے۔ اگر آپ پڑوسی کے گھر میں کودیں گے یا مداخلت کریں گے تو وہ کوئی خاموش تو نہیں بیٹھے گا۔ اگر پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا تو نئی دہلی کیسے خاموش بیٹھے گا۔ بہرحال یہ مثبت بات ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘

Pakistan Demonstration für vermisste Angehörige in Queeta
بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: DW/Shadi Khan Saif