1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

پاکستان، جانوروں کو بھی جینے کا حق ہے!

29 جون 2022

اٹھارویں صدی کے فلسفی اور جانوروں کے حقوق کے علمبردار جیریمی بینتھم کے مطابق جب کسی ہستی کے حقوق کا فیصلہ کرنا ہو تو سوال یہ نہیں ہے کہ آیا وہ استدلال یا بات کر سکتا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ تکلیف اٹھا رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/4DP8j
Pakistan Hunde Vergiftung
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

حال ہی میں ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا، ''ایک جانور بلاشبہ ایک جذباتی وجود ہے۔ اس میں جذبات ہوتے ہیں اور وہ درد یا خوشی بھی محسوس کر سکتا ہے۔ فطرت کے لحاظ سے ہر جاندار کا اپنا قدرتی مسکن ہے۔ انہیں سماجی رویے اور جسمانی ضروریات کے لیے الگ الگ سہولیات اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ہاتھی کو ریوڑ سے الگ کرنا اور اسے الگ تھلگ رکھنا  اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ انسانوں کی طرح جانوروں کے بھی فطری حقوق ہیں، جنہیں تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ ہر ایک جانور اور ہر ایک جاندار کا حق ہے کہ وہ ایسے ماحول میں جیے، جو اس کے سماجی رویے اور جسمانی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔‘‘

ایسے ہی الفاظ کی گونج نیویارک کے ایک عدالتی فیصلے میں بھی سنی گئی، جس کے آخر میں یہ لکھا تھا، ''جانور چونکہ ہمارے ماحول سے مانوس نہیں ہوتے، اس لیے ان کو مناسب دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

نفسیات دان کہتے ہیں کہ جانور سوچتے سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ان کے جذبات اور وابستگیاں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں، جیسی ہماری ہوتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان جانوروں، جن کو پالتو بنا کر رکھتے ہیں، ان کا خیال بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ اور اس سوال کا اکثر جواب نہیں میں ہی آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً ہم ان کو صرف جانور سمجھتے ہیں جاندار نہیں اور دوم ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ہر جاندار کے احساسات ہوتے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Arifa Rana
عارفہ راناتصویر: privat

ریاستی اور وفاقی قوانین عام طور پر جانوروں کو اپنی ملکیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر انسداد ظلم کے قوانین کا تقاضہ ہے کہ تمام قیدی اور پالتو جانوروں کو کھانا، پینا اور پناہ گاہ کی جانا چاہیے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جانوروں کی کم از کم 177 اور پرندوں کی 660 اقسام پائی جاتی ہیں، جو اسے متنوع ماحولیاتی نظام میں سے ایک بناتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے تحفظ اور بحالی کی کوششیں بہت کم کی جاتی ہیں اور اگر کی بھی جاتی ہیں تو وہ دیر پا نہیں ہوتیں۔

برے حالات میں وقت گزارنے والے جانوروں کے مسئلے کو قومی قانون کے تحت ایک الگ موضوع کے طور پر پیش نہیں کیا گیا اور یہ موضوع خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ جانوروں کی جسمانی اور ماحولیاتی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہے، خاص طور پر چڑیا گھروں میں۔ عام طور پر یہ کام صوبائی حکومتوں کو تفویض کیا جاتا ہے۔ اگرچہ جانوروں پر ظلم کی روک تھام کا 1890 (PCTAA) ایکٹ تسلیم کرتا ہے کہ جانور درد اور تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن کسی بھی قانون سازی میں جذبات کو واضح طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

چڑیا گھروں کے بارے میں کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔ اگرچہ 1890 (PCTAA) آرٹیکل تین اور پانچ اس بارےمیں واضح ہیں۔ جنگلی حیات کا انتظام صوبے کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ ناردرن ایریاز وائلڈ لائف پریزرویشن ایکٹ 1975ء کے تحت جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ تحقیقی مقاصد کے لیے چیف وائلڈ لائف وارڈن کی رضامندی کے بغیر یا نجی طور پر رکھے جانے والے جنگلی جانوروں کو چڑیا گھر کے حصے کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان پینل کوڈ 1860ء کے آرٹیکل 429 کے باوجود، جو کہ 50 روپے سے زیادہ قیمت کے کسی جانور کے قتل، اسے زہر دینے، معذور یا بیکار کرنے کو جرم قرار دیتا ہے، کے باوجود ظالمانہ اقدامات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہر سال مختلف این جی اوز اس کے بارے میں پرچار کرتی نظر آتی ہیں کہ جانورں کو بھی جاندار سمجھ کر ان کے حقوق دیے جائیں۔

کچھ این جی اوز جانوروں کے بارے میں ظالمانہ رویہ رکھنے پر قوانین کو سخت بنانے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی ہی ایک این جی او کی کارکن عائزہ حیدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر جاندار کی طرح جانوروں کا بھی احساس کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق پاکستان میں قوانین کی کمی ہے اور جو ہیں ان کا اطلاق ٹھیک سے نہیں ہوتا ہے، ''جیسے پاکستان میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے کیسز بڑھنے کی وجہ سے ان کی نسل کُشی کا کہا گیا۔ مگر پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے، جو اس طرح کی نسل کُشی کی حمایت کرتا ہو۔ ‘‘

 اسی ضمن میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن ایڈووکیٹ حمزہ ہمایوں کی جانب سے دائر کی گئی کہ اگر اس قسم کی نسل کُشی کرنی ہے تو اس پر واضح قانون اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے، جو کہ موجود نہیں ہے۔

آسٹریا دنیا میں وہ واحد ملک ہے، جو جانوروں کے لیے محفوظ تریں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ کا نمبر آتا ہے۔ یہ سب ان ممالک میں موجود جانور دوست قوانین کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کو بھی فوری طور پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت جنگلی جانوروں کے حقوق اور تحفظ کی شقوں  کے علاوہ  فارمی جانوروں کی پرورش، نقل و حمل اور ذبح کے الگ الگ مراحل کے دوران مخصوص فلاحی تقاضوں کی تفصیل دی جائے۔

 اس طرح کے تقاضوں کو قانونی طور پر نسل سے متعلق ہونا چاہیے اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جانوروں کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ فارموں اور مذبح خانوں کا باقاعدہ معائنہ کرنا ہو گا ورنہ زمینی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ پاکستان حلال اتھارٹی نےایکٹ (2015) میں نہ صرف ذبیحہ کے پورے عمل میں جانوروں کے ساتھ بہتر سلوک کو لازمی قرار دیا ہے بلکہ جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کرنے سے بھی منع کیا ہے لیکن اس قانون پر بہت کم ہی عمل درآمد ہوتا ہے۔

میرے خیال سے حکومت قوانین تو بنا سکتی ہے لیکن لوگوں کے دلوں میں جانوروں کی محبت گھر گھر جا کر نہیں ڈال سکتی۔ یہ ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم جانوروں اور پرندوں کے حقوق اور ان کی مناسب دی دیکھ بھال کا خیال رکھیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔