1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: خسرے کی وباء ملک کے دیگر حصوں تک پہنچ گئی

Afsar Awan23 جنوری 2013

پاکستان میں خسرے کی وباء سندھ سے نکل کر اب دیگر صوبوں میں بھی پہنچ چکی ہے۔ پنجاب میں بھی اب تک کم از کم سات بچوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/17PzE

17جنوری 2013ء کو عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خسرے کے سبب ہونے والی اموات میں سال 2000ء کے مقابلے میں 71 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ تاہم پاکستانی صوبہ سندھ میں گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پھوٹنے والی اس متعدی بیماری کی وباء کے سبب نہ صرف ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ اب یہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ پاکستانی قبائلی علاقے میرانشاہ تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں خسرے کی حالیہ وباء کے سبب ہلاکتوں کی تعداد 460 سے تجاوز کر چکی ہے۔


پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی میں اب تک خسرہ کے باعث 58 بچوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ برس اس صوبے میں نومبر اور دسمبر کے مہینے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 214 تھی۔ ان ہلاکتوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں خسرے کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے۔ جس کی وجہ حکومتی ادارے گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث حفاظتی مراکز کے قیام میں مشکل اور والدین کی بچوں کو ٹیکے لگوانے میں عدم دلچسپی کو قرار دیتے ہیں۔ حیدرآباد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے صوبائی کوارڈینیٹر ڈاکٹر سیف اللہ کہتے ہیں: ’’بالائی سندھ میں جس طرح سیلاب کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو کافی لوگ یہاں سے منتقل ہوئے تھے۔ اس وجہ سے تمام بچوں کو خسرے کے بچاؤ کے ٹیکے نہ لگائے جا سکے تھے۔ تاہم ہماری پوری ہیلتھ کی ٹیم نے اس پر کام کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکے لگانے کے کام کو پورا کیا ہے۔‘‘


نیشنل انسٹیٹوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی میں اسسٹنٹ پرفیسر کے طور پر فرائض انجام دینے والی ڈاکٹر محسنہ نے خسرہ پھیلنے کی ایک وجہ حفاطتی ٹیکے مناسب انداز سے نہ لگنے کو قرار دیا: ’’عالمی ادارہ صحت کے مطابق نو مہینے کی عمر میں بچے کو ویکسین دی جاتی ہے، اس کے بعد نہیں دی جاتی۔ ایسے میں اگر کسی بچہ کو حفاظتی ٹیکہ نہیں لگتا تو وہ اس ٹیکے سے محروم ہی رہ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ والدین خود بھی بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لئے مرکز پر نہیں لے جاتے۔‘‘


ڈاکٹر محسنہ کی اس بات کی تائید نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ میں زیر علاج بچوں کے والدین سے بھی ہوتی ہے۔ وہاں زیر علاج ایک سالہ میشا اور اس کی والدہ کا تعلق کراچی کے علاقے شانتی نگر سے ہے۔ میشا کی والدہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کو نو مہینے کی عمر میں خسرے کا ٹیکہ نہیں لگوایا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’نہ تو ہمارے گھر کوئی حفاظتی ٹیکے لگانے آیا اور نہ ہی میں اس لے کر مرکز پر خود گئی۔‘‘ تاہم اس کی کیا وجہ تھی یہ وہ بتانے سے قاصر تھیں۔ اسی طرح تین سالہ اقصیٰ کی والدہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کی پیدائش کے وقت حفاظتی ٹیکوں پر توجہ نہیں دی تھی نہ ہی اس بارے میں انہیں کسی ڈاکٹر نے ہدایت کی تھی جس کی وجہ سے اب یہ بچی خسرے کا شکار ہے اور بیماری اس کے دماغ تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مرزا علی اظہر کہتے ہیں کہ رواں سیزن میں بچوں میں اتنے بڑے پیمانے پر خسرے کی وبا پھوٹنے کی ذمہ داری والدین کے علاوہ حفاظتی ٹیکوں کی مہم چلانے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے: ’’اس میں مجرمانہ غفلت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ بچوں کو صحیح طرح ٹیکے نہیں لگائے گئے، حفاظتی ٹیکے لگانے کے جو مقام ہیں انہیں بہتر طریقے سے نہیں بنایا گیا۔ حفاظتی ٹیکوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ ویکسین لوگ لگا بھی رہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ہمارے یہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹیکہ لگانے کے بجائے پھینک دیا گیا اور اندارج کر دیا کہ پندرہ ہزار بچوں کو لگایا جا چکا ہے۔ یا پھر غیر مؤثر ویکسین کا استعمال کیا گیا یعنی اخراجات بھی کیے اور غیر موثر ٹیکے لگائے گئے۔‘‘


ڈاکٹر مرزا علی کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں میں بھی شعور نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچانے کے لیے ٹیکے لگوانے خود ہی مرکز کا رخ کریں: ’’والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ پولیو کیا ہے، خسرہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ پولیو کے قطرے پلائیں گے یا خسرہ کی ویکسین لگوائیں گے تو ان کا بچہ پولیو سے یا موت سے بچ جائے گا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بعض لوگ جہالت کی بھی باتیں پھیلاتے ہیں کہ اگر ان کے بچے کو ویکسین پلائی گئی تو ان کا بچہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اگر ایسی جہالت ملک میں زوردار طریقے سے پھیلائی جائے گی تو اس کے منفی نتائج حاصل ہوں گے۔‘‘

محکمہ صحت کراچی کے ترجمان کے مطابق رواں سال انسداد خسرہ مہم میں کراچی کے 21 لاکھ سے زائد بچوں کو خسرہ سے بچاﺅ کے ٹیکے لگائے جانے تھے تاہم 10 روزہ مہم میں صرف ہا ئی رسک ایریا کے چار لاکھ 80 ہزار بچوں کو انسداد خسرہ مہم کے ٹیکے لگا ئے گئے۔


پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق افغان سرحد کے قریب پاکستانی کے قبائلی علاقے میرانشاہ میں بھی چار بچے خسرہ کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔

صوبہ پنجاب میں اس وبائی بیماری کے سبب سات بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ خسرے کے 1400 کیسز بھی سامنے آئے ہیں جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اس وبا کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی

ادارت: افسر اعوان