پاکستان ریلوے نظام تباہی کے دہانے پر
21 دسمبر 2011پاکستان میں ریل کے مسافروں کی دی جانے والی سہولتوں میں بھی واضع کمی کی جا چکی ہے۔ سن 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ہزاروں میل کے ریلوے ٹریک پاکستان کو وراثت میں ملے تھے اور ٹرینیں لاکھوں افراد کے لیے سستی نقل و حرکت کا مقبول ترین ذریعہ تھیں۔ پاکستان گزشتہ پانچ برسوں سے سیاسی عدم استحکام کے علاوہ سماجی و اقتصادی بحرانوں کا شکار ہے۔ کرپشن سمیت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے نا صرف ریلوے کی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ریلویز کا شعبہ ناقابل یقین طور پر زوال کا شکار ہوا ہے۔
موجودہ حکومت کے سن 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک 204 میں سے 104 ٹرینوں کی سروس کو بند یا معطل کیا جا چکا ہے۔
اس ریاستی ادارے کو ماہانہ صرف تنخواہ اور پینشن کی ادائیگی کے لیے 2.5 ارب روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ریلویز کا 2011ء اور سن 2012 کا خسارہ 35 بلین روپے ہوگا۔
پاکستان میں ہزاروں ریلوے ملازمین کے گھریلو اخراجات کا انحصار پینشن پر ہے اور اب یہ بھی ان کو وقت پر نہیں دی جاتی۔ اسی طرح اکتوبر میں ایک ریٹائرڈ ملازم پینشن حاصل کرنے کے انتظار میں تین دن تک بینک کے سامنے کھڑا رہا اور وفات پا گیا۔ ایسے بہت سارے افسوس ناک واقعات محکمہ ریلوے کے ریٹائرڈ اور حاضر ملازمین کے روزانہ کی بنیادوں پر سامنے آ رہے ہیں۔
جعفر حسین گزشتہ چوالیس برسوں سے قلی کا کام سر انجام دے رہا ہے۔ ان چار عشروں میں وہ ہمیشہ لوگوں سے کچھا کھچ بھرے پلیٹ فارمز کے درمیان سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا رہا لیکن ان دنوں وہ خالی ہاتھ بیٹھا مسافروں کے انتظار میں رہتا ہے۔
راولپنڈی اسٹیشن پر کام کرنے والے جعفر حسین کا ریلوے میں بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہنا ہے، ’’ میں یہاں 1967ء سے کام کر رہا ہوں۔ میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب ریلوے اپنے عروج پر تھی لیکن اب یہ ایک مردہ شعبہ بن چکا ہے۔‘‘
ریلوے کے وزیر غلام احمد بلور کا اس صورتحال کے بارے میں کہنا ہے کہ ریلویز کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ یہ شعبہ کبھی بھی منافع بخش نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اس کا خسارہ کم کر دیں تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
غلام احمد بلور کا گزشتہ حکومتوں کو الزام دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس شعبے میں کسی بھی طرح کی سرمایہ کاری نہیں کی گئی لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ بھی مجرم ہے۔
بلور احمد نے کہا کہ کابینہ نے جنوری میں ریلوے کے لیے 125 ملین ڈالر کی ہنگامی فنڈنگکی منظوری دی تھی لیکن وزارت خزانہ کی طرف سے ابھی تک یہ رقم انہیں جاری نہیں کی گئی، ’’ہم نے حکومت سے 300 نئے انجنوں کی خریداری کے لیے درخواست کی تھی تاکہ معمول کی کارروائیوں کی طرف واپس لوٹا جا سکے لیکن ہمیں ایک بھی پیسہ نہیں دیا گیا۔‘‘
بلور مزید کہتے ہیں، ’’ہم نے سن 2004 میں چین سے 69 انجن خریدے تھے لیکن ہم نے اسپیئر پارٹس خریدنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا اور اب انجن کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے زیادہ تر امیر لوگ ملک میں لمبے سفر ہوائی جہاز کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ ٹرین پر سفر کرنے والے زیادہ تر افراد غریب ہوتے ہیں۔
سابق ریلوے وزیر شیخ رشید احمد کا کہنا ہے، ’’ریلوے میں ہر سطح پر کرپشن اور بد انتظامی ہے۔ ملازمین کام نہیں کرتے، انجنوں کا تیل تبدیل نہیں کیا جاتا جبکہ افسران ان کے خراب ہونے اور نئے انجن خریدنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ کمیشن بنایا جا سکے۔‘‘
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین