’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے والی طالبہ کو ضمانت مل گئی
12 جون 2020بھارت کے جنوبی شہر بنگلور کے ایک سیشن کورٹ نے ایک روز قبل ہی امولیہ لیونا کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی، تاہم نچلی عدالت کے ایک مجسٹریٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ پولیس کو ایسے کیسز میں گرفتاری کے بعد قانونی طور پر 90 دنوں کے اندر فرد جرم عائد کرنی ہوتی ہے اور ریاست اس مقررہ وقت میں یہ کام کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے ملزم کو ضمانت تو خود بخود مل گئی۔ اصولی طور پر پولیس کو 20 مئی تک فرد جرم داخل کرنی تھی لیکن اس نے تین جون کو فرد جرم داخل کی۔
امولیہ کے وکیل پرسنّا نے مجسٹریٹ کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی جسے عدالت نے تسلیم کر لیا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پرسنّا نے بتایا کہ امولیہ جلد ہی جیل سے باہر آجائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امولیہ کالج کی ایک نوجوان طالبہ ہیں اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان پر 'پاکستان زندہ باد' کا نعرہ بلند کرنے پر حکومت نے بغاوت کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا۔
ان کا کہنا تھا حکومت پولیس کی مدد سے کچھ بھی کرے تاہم، ''عدالت میں قانون کے سامنے اس طرح کے کیسز میں کسی کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت مقدمات میں سپریم کورٹ اس بات کو واضح کر چکی ہے کہ محض کچھ کہہ دینے سے کوئی باغی نہیں ہو جاتا۔ یہ سب حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کی ایک کوشش ہے۔''ان کا کہنا تھا حکومت پولیس کی مدد سے کچھ بھی کرے تاہم، ''عدالت میں قانون کے سامنے اس طرح کے کیسز میں کسی کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت مقدمات میں سپریم کورٹ اس بات کو واضح کر چکی ہے کہ محض کچھ کہہ دینے سے کوئی باغی نہیں ہو جاتا۔ یہ سب حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کی ایک کوشش ہے۔''
پرسنا کا کہنا تھا کہ ''اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہوگئی کہ ریاستی حکومت نے 19 سالہ لڑکی کے 'پاکستان زندہ باد' کے نعرہ لگانے پر تفتیش کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ تاہم کیا کیا جائے آج کل ماحول ہی کچھ ایسا ہے۔''
شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے 20 فروری کوبنگلور کے فریڈم پارک میں ایک جلسہ ہورہا تھا جس میں شرکت کے لیے کالج کی طالبہ امولیہ لیونا بھی پہنچیں اور انہوں نے اسٹیج پر آتے ہی پہلے پاکستان زندہ باد اور پھر ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کیے۔ ایسا کرنے پر انھیں پہلے روکا گیا اور پھر ان کے ہاتھ سے مائیک چھین کر پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔ چودہ روز کے عدالتی تحویل کے بعد ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بنگلور میں ہونے والے اس جلسے میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما اسدالدین اویسی بھی موجود تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مسٹر اویسی اسٹیج پر تھے اور وہ یہ کہتے ہوئے مائیک چھیننے کے لیے آگے بڑھے کہ ''یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔'' پولیس نوجوان طالبہ کو پکڑ کر اسٹیج سے نیچے لے گئی۔
اس کے بعد مشتعل اویسی نے 'پاکستان مردہ باد' کے نعرے لگوائے تھے اور کہا، ''ہم کسی بھی طرح دشمن ملک پاکستان کی حمایت نہیں کرتے ہیں، منتظمین کو انھیں یہاں آنے کی دعوت نہیں دینی چاہیے تھی، اگر مجھے اس صورتحال کا اندازہ ہوتا تو میں یہاں آتا ہی نہیں، شہریت سے متعلق قانون کے خلاف ہماری تمام کاوشوں کا مطلب بھارت کو بچانا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود حکمراں جماعت بی جے پی نے اویسی کی وضاحتوں کو مسترد کردیا تھا۔