1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سنگین ہوتے ہوئے بحران پر قابو پانے کی کوششیں

23 جولائی 2022

کمزور معیشت کے پیش نظر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانب دارانہ مداخلت کی خبروں کے بعد سیاسی منظر نامے میں بہتری لانے کے کوششوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4EYMs
Pakistan Gerichtsgebäude in Lahore
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

ایک طرف عدالتی سطح پر پنجاب میں وزیراعلی کے انتخاب کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف سول سوسائٹی کی طرف سے بھی سیاست دانوں کو اپنے اختلافات طے کرنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی تباہ ہوتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے غیرجانبدار رہتے ہوئے 'نرم مداخلت‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف متحارب سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر گفت و شنید کے ذریعے اپنے اختلافات طے کرنے کے عمل کی ممکنہ طور پر حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

مقامی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے بتایا کہ انہوں نے سینئیر صحافی مجیب الرحمن شامی  کے ساتھ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی تھی اور انہیں آرمی چیف کی تقرری، معیشت کی بحالی اور الیکشن کے انعقاد اور انتخابی اصلاحات پر حکومت سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی تجویز دی تھی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس ملاقات میں اداروں کی حدود و قیود کے معاملے پر بھی گفتگو ہوئی تھی۔

ان کے مطابق موجودہ مشکل حالات میں جس شخص یا ادارے کو ملک کا مفاد عزیز ہو گا وہ حالات کی بہتری کے لیے ضرور اپنا کردار ادا کرے گا۔ ان کے مطابق موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے، ''سب متعلقہ فریقین کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل افہام و تفہیم سے نکالنا چاہیے۔‘‘ مجیب شامی نے تصدیق کی کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں عمران خان کے تحفظات تو تھے لیکن انہوں نے الیکشن، معیشت کی بحالی اور اداروں کے آئینی کردار کے حوالے سے بات چیت کرنے پر تو آمادگی ظاہر کر دی ہے لیکن وہ احتساب وغیرہ کے معاملات پر بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اپوزیشن اور حکومت کی بات چیت کا طریقہ کیا ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان صدر مملکت کو ایک خط لکھ سکتے ہیں اور صدر اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ وہ اس ضمن میں آنے والے دنوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت سے مل کر یہی درخواست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ان کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی کو حکومت میں لانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ حکومت کی طرف جانے والے راستے کا مل بیٹھ کر تعین کرنا ہے ان کے نزدیک حکومت کرنے کا حق صرف اس کو ہے جسے ایک شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام اپنے ووٹ کے ساتھ ایوان اقتدار میں بھیجیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایک متنازعہ اسٹیبلشمنٹ بھی اصلاح احوال میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ مجیب شامی کا کہنا تھا کہ ان کا کام وہ جانیں ہم ایک ذمہ دار شہری کے طور پر پاکستان کے مشکل حالات میں بہتری کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ادھر سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ  نے وزیراعلیٰ  پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا ہے کہ حمزہ شہباز  پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں۔

حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب قرار، پی ٹی آئی کا ماننے سے انکار

نئے ڈی جی نیب پی ٹی آئی کے نشانے پر

عدالت نے اپنے حکم نامے میں  کہا کہ  وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے اختیارات محدود رہیں گے،  تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی،  میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے، وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کے لیے کچھ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا۔

ادھر حکمران اتحاد نے ہفتے کے روز اپنے ایک مشترکہ اعلامیے میں چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی فل کورٹ سماعت کی جائے۔ ان کے بقول  یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملک کو چکانا پڑ سکتی ہے۔

یاد رہے حمزہ شہباز لاہور کے گورنر ہاوس میں نئے وزیراعلی پنجاب کے طور پر ہفتے کی صبح حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے متنازعہ نتیجے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے اور کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں لاہور اور پنجاب میں رینجرز کو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔