1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سیاسی یا معاشی بحران، ترجیحی حل کس کا؟

عصمت جبیں اسلام آباد
29 جولائی 2022

مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار پاکستانی عوام مضطرب ہیں اور موجودہ صورتحال میں بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اکثر عام شہریوں نے خود کو درپیش معاشی مشکلات کے حل کی خواہش ظاہر کی۔

https://p.dw.com/p/4EqOh
تصویر: DW/I. Jabeen

 سن 2018کے انتخابات کے بعد سے پاکستانی سیاست اور معیشت پہلے بےیقینی اور پھر مسلسل بحرانی حالات کا  شکار رہی ہیں۔ آج کے پاکستان میں عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بےروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے، وہیں عوامی سطح پر مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیوں نے بھی بہت معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے۔

  رواں سال کے آغاز سے ہی پاکستان شدید نوعیت کے اقتصادی بحران کا شکار ہے جبکہ سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی اور جوڑ توڑ ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا بحران ہے یا سیاست کا؟ عوام کی ملک کے کرتا دھرتاؤں سے کیا توقعات ہیں؟ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر دی جائے یا سیاسی استحکام پر؟ یہ جاننے کے لیے ہم نےمختلف سیاسی اور سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے عام پاکستانیوں سے ان کی رائے لی ہے۔

ایک نجی اسکول میں دس سال سے سیاسیات کا مضمون پڑھانے والی صوبیہ کمال نے ڈی ڈبلیو کو اس سوال کا جواب یوں دیا، ''جدید دور کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور  اسے پولیٹیکل اکنانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اگر ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں صرف سیاست دانوں کو معیشت کی بدحالی کے لیے مورد الزام ٹھہرانا معقول بات نہیں۔ اس لیے کہ سیاسی عدم استحکام کی کچھ بنیادی وجوہات میں سے ایک ملک کا سکیورٹی اسٹیٹ ہونا ہے، پاکستان ایک جوہری طاقت ہونے کے باعث عسکری طور پر تو مضبوط ہے مگر سیاسی معیشت عسکری پالیسیوں کی تابع بھی ہے۔ اسی لیے انسانی وسائل کی ترقی عدم توجہ کا شکار ہے۔ جب تک فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے پر مجبور نہیں ہوں گی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال دونوں جاری رہیں گے‘‘۔

Mujeeba Batool Aktivistin
مجیبہ بتول کے مطابق سیاسی عدم استحکام ملکی مسائل میں اضافہ کرتا ہےتصویر: Privat

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بطور نرس فرائض انجام دینے والی شانزے جعفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستانی عوام کا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ان کو نہ تو روزگار میسر ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے کوئی مدد۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ لوگوں کے  پیٹ میں  کوئی لقمہ جائے گا تو ہی کوئی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں سوچے گا‘‘۔

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں موبائل فون کی ایک دکان چلانے والے فرقان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے عام شہریوں کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور معیشت بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گذر بسر مشکل ہو چکی ہے۔ سیاست دانوں کو برا بھلا کہنا آسان بات تو ہے مگر یہ بات سمجھنا ناگزیر ہے کہ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے‘‘۔

ساٹھ سالہ خاتون شہری سعدیہ ممتاز نے ریاستی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب تو غریب شہری کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں۔ انہوں نے بتایا، "میری چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میرے شوہر کی موت کو دس سال ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے گھر کی دال روٹی پوری کریں کہ ایسی فضول باتیں سوچیں کہ سیاست پہلے ہے یا معیشت۔ مجھےعمران خان، نواز شریف، زرداری کسی سے کوئی لینا دینا نہیں، فوج نے ہماری جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ اس ملک میں ہے کیا غریب آدمی کے لیے؟ نہ روٹی، نہ کپڑا اور نہ روزگار۔‘‘

سعدیہ ممتاز نے اپنے زخمی ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا، ''میری تو عمر گزر گئی لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے لیکن اپنا آج تک کچھ نہیں بنا۔ بس ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک تو صرف غریبوں کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہو‘‘۔

Shaukat Ali
شوکت علی اسلام آباد میں روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیںتصویر: Ismat Jabeen/DW

پاکستانی دارالحکومت کے علاقے جی نائن میں ایک کریانہ اسٹور کے مالک عادل حبیب کا کہنا تھا، ''پاکستان میں طاقت ور حلقے جب تک کسی بھی عوامی حکومت کو اس کے اختیارات کے جائز استعمال کی اجازت اور آزادی نہیں دیں گے، ملکی معیشت اسی طرح سر کے بل کھڑی رہے گی اور عوام کے مصائب میں اضافے کا باعث بنتی رہے گی‘‘۔

 عادل حبیب کے الفاظ میں، ''پاکستان میں جب تک سب سیاست دان مل کر ملک کر سیاسی اور اقتصادی دونوں حوالوں سے بہتر بنانے کا فیصلہ نہیں کریں گے، تب تک کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ عوام تو ووٹ دے دے کر تھک گئے ہیں لیکن ان کے حالات بدل جانے کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آتا‘‘۔

قائداعظم یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم سجاد احمد نے ڈوئچے ویلے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ''پاکستانی ادارے ہی ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت اور سیاسی صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی حکومت بنانا یا گرانا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔اسی لیے معیشت کبھی بھی مضبوط نہیں ہو پاتی۔ عام آدمی تو بس اپنے مالی وسائل اور مشکلات کا موازنہ کرتے فکر مند ہی رہتا ہے۔ اس کے لیے ذاتی معاشی ترقی تو آج بھی بس ایک خواب ہی ہے‘‘۔

سیالکوٹ سے روزگار کے لیے بنی گالہ منتقل ہونے والے شوکت علی جو مزدوری کے پیشے سے منسلک اور سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''پاکستان میں آج کل ایک خاص سیاسی جماعت کو ہر ادارے سے تحفظ مل رہا ہے۔ کبھی عدلیہ کوئی اچانک فیصلہ کر کے سیاسی استحکام کو دھچکا دیتی ہے تو کبھی کوئی ادارہ کوئی نئی سیاسی اسکیم پیش کر دیتا ہے۔ ان حالات میں معشیت کی بہتری ناممکن ہے۔ سیاسی معامالات میں ملک کے غیر سیاسی اداروں کی آئندہ بھی بےوجہ مداخلت روپے کی قدر کو اور گرائے گی اور عام آدمی کے لیے مہنگائی کا طوفان شدید ہوتا جائے گا‘‘۔

Afshan Masab Journalistin
معیشت اور سیاست ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں، افشاں مصعبتصویر: Ismat Jabeen/DW

ملکی سیاست پر نگاہ رکھنے والی صحافی افشاں مصعب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''معیشت اور سیاست ساتھ ساتھ ہی چلتی ہیں۔ جب تک جمہوریت اور سیاست میں استحکام نہیں آئے گا، معیشت کی حالت  نازک ہی رہے گی۔ ہم نے فوجی صدر پرویز مشرف کے دور کا اقتصادی بلبلہ دیکھا ہے، جو پھٹا تو دو جمہوری حکومتوں نے اسے سنبھالا دیا تھا مگر خود ان حکومتوں کو سنبھلنے نہیں دیا گیا تھا۔ ''ہائبرڈ رجیم‘‘ نے معیشت کا جو حشر کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ معیشت کو ٹھیک کس نے کرنا ہے؟ ٹیکنوکریٹس نے، عدلیہ نے، اسٹیبلشمنٹ نے یا اس کے لائے کسی امپورٹڈ بریف کیس والے رہنما نے؟ دنیا بھر میں تو یہ معاملات سیاست دان ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں آپ سی پیک منصوبے ہی کی مثال لے لیں، جو اب بدترین مثال بن چکا ہے‘‘۔

پاکستان میں ترقیاتی شعبے سے وابستہ اور حقوق نسواں کی علم بردار مجیبہ بتول نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی دونوں ایک دوسرے کے بغیر غیر یقینی ہی رہیں گے۔ پاکستانی معیشت ہی مسائل کی اصل وجہ ہے اور پھر سیاسی عدم استحکام ان مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح پندرہ فیصد ہے، جو اگلے سال بیس فیصد تک ہو جانے کا خدشہ ہے تو یہ ایک عام پاکستانی کے لیے کسی عذاب سے کم ہے کیا؟ معیشت گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں پارلیمانی رائے دہی کے نتیجے میں فیصلوں تک کی تشریح کے لیے اعلیٰ ترین عدلیہ سے رجوع کرتی ہیں۔ تو ایسے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کون سا جادوئی منتر پڑھنے کے بعد ممکن ہوں گے؟‘‘