1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سیلاب: جرمن شہریوں کی جانب سے 16 ملین یورو کے عطیات

25 اگست 2010

جرمن شہریوں نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لئے اب تک سولہ ملین یورو کے عطیات دئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/OvEb
جرمن ریڈ کراستصویر: AP

یہ بات ایک ہی اکاؤنٹ نمبر کے ذریعے عطیات جمع کرنے والی دَس جرمن امدادی تنظیموں کے اتحاد ’جرمنی ہیلپس ایکشن‘ کی جانب سے بتائی گئی ہے۔

منگل کو جرمن دارالحکومت برلن میں اِس ایکشن پروگرام کی جانب سے بتایا گیا کہ شروع شروع میں جرمن شہریوں کی جانب سے عطیات دینے کی رفتار قدرے کم رہی لیکن اب کافی زیادہ عطیات آ رہے ہیں اور یہ کہ ابھی اور بھی زیادہ عطیات کی اشد ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اِن رقوم کی مدد سے اب تک تقریباً ڈھائی لاکھ سیلاب زدگان کو پینے کا صاف پانی، اَشیائے خوراک، کمبل، خیمے، ادویات اور حفظانِ صحت کا سامان فراہم کیا جا چکا ہے۔ امدادی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ پاکستانی کی تاریخ کے اِس ہولناک ترین سیلاب سے مجموعی طور پر تقریباً بیس ملین انسان متاثر ہوئے ہیں، جنہیں پانی اور خوراک کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Pakistan / Flut / Hochwasser / Zeltlager
سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیںتصویر: AP

امدادی تنظیم ’کیئر‘ کے ترجمان تھوماس شوارس نے گزرے ہفتوں کے دوران سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالات ’دل ہلا دینے والے‘ ہیں:’’سیلاب زدہ افراد بیالیس ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں پیاس کے مارے وہ ٹھہرا ہوا پانی پینے پر مجبور ہیں، جس میں جراثیم ہی جراثیم ہیں۔‘‘ اُنہوں نے بتایا کہ یہ آلودہ پانی پینے سے لوگ شدید دست میں مبتلا ہو رہے ہیں، کئی ایک جلد اور آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ چند ایک موت کے منہ میں بھی جا رہے ہیں۔

No Flash Pakistan Überschwemmung Essensausgabe
سیلاب زدگان خوراک حاصل کرنے کے لئے قطار میںتصویر: AP

شوارس نے بتایا کہ بھوک کے شکار بچوں کے پیٹ پھولے ہوئے ہیں اور وہ نم زمین پر سونے پر مجبور ہیں۔ حاملہ خواتین بکریوں اور گائیوں، بھینسوں کے درمیان ہی بچے جننے پر مجبور ہیں۔ شوارس کے مطابق طالبان یا پھر پاکستانی حکومت کے بدعنوان افسران کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات بجا سہی لیکن یہ ساری بحث شاید اب سے ایک سال بعد ہونی چاہئے۔ فوری طور پر لوگوں کو کسی بھی سیاسی بحث مباحثے کے بغیر فوری مدد فراہم کی جانی چاہئے۔ اِسی سلسلے میں ’کیئر‘ کے ناظم الامور آنٹون مارک مِلر نے یاد دلایا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنوں کو اُن کے سیاسی ماضی کی پروا کئے بغیر ’کیئر‘ کے امدادی پیکٹ فراہم کئے گئے تھے۔

Anton Markmüller
’کیئر‘ کے ناظم الامور آنٹون مارک مِلرتصویر: DW

منگل کو ہی برلن سے جرمن ریڈ کراس کی ایک اور امدادی پرواز پاکستان کے لئے روانہ ہو گئی۔ اِس پرواز پر وہ آلات بھی تھے، جن کی مدد سے پندرہ ہزار انسانوں کے لئے پینے کا صاف پانی تیار کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ وِیک اَینڈ پر وفاقی جرمن حکومت نے پاکستان کے لئے اپنی براہِ راست امداد بڑھا کر 25 ملین یورو کر دی تھی۔ امدادی تنظیموں نے اِس رقم کو اطیمنان بخش قرار دیا ہے اور جرمن شہریوں کی جانب سے دئے گئے عطیات کے لئے اُن کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان تنظیموں نے اِس امر کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی علاقوں کی تعمیرِ نو کے لئے کئی سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

اِسی دوران پاکستان میں جرمنی کے ایک سابق سفیر گنٹر مولاک نے بھی، جو آج کل جرمن اوریئنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ بھی ہیں، جرمن شہریوں سے پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے زیادہ سے زیادہ عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا، وہ جانتے ہیں کہ بیرونی دُنیا میں پاکستان کا امیج بہت منفی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں سے محض دو تین فیصد لوگ ہی انتہا پسند ہیں۔’’اِس وقت ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُن عام پاکستانیوں کی مدد کی جائے، جنہیں اپنی حکومت کی نا اہلی اور بدعنوانی کا بھی سامنا رہتا ہے۔‘‘

رپورٹ: امجَد علی/خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں