پاکستان میں خود کُش حملہ، تین سکیورٹی اہلکار ہلاک
15 مئی 2022اتوار کو حکام نے کہا کہ افغانستان کی سرحد سے نزدیک اس واقعہ کے علاوہ، مسلح افراد نے سکھ اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اُدھر ایک فوجی بیان میں کہا گیا کہ ایک گاؤں میں سکیورٹی گشت پر مامور گاڑی کے قریب دھماکہ خیز مواد سے لیس جیکٹ پہنے خود کُش بم حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میرعلی کے قریب پیش آیا۔ حملے میں فوجی گاڑی میں سوار دو فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک دیگر زخمی ہو گیا۔ جائے حادثہ میں اُس وقت سڑک کنارے تین بچے کھیل رہے تھے جو بُری طرح زخمی ہو گئے۔ تمام زخمیوں کو فوری طور سے بذریعہ ہیلی کوپٹر قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاہم ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔
خود کُش بم حملے کے پیچھے کون؟
اتوار کو ہوئے اس تازہ ترین خود کُش بم حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔ دریں اثناء فوج نےکہا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس حکام اس علاقے کو گھیرے میں لے کر بمبار کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور خود کُش بمبار کے سہولت کار کی کھوج کا کام جاری ہے۔ مقامی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق میران شاہ میں ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اتوار کی شام قریب پانچ بجےتحصیل میر علی میں سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی کو مبینہ خود کُش حملہ آور نے اُس وقت اپنے حملے کا نشانہ بنایا جب وہ میران شاہ سے میر علی آ رہی تھی۔ پولیس افسر کے مطابق خود کُش حملہ آور کے اعضاء کو سکیورٹی حکام نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور دہشت گردی کے اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ مقامی باشندوں نے علاقے میں سرچ آپریشن جاری رہنے کی اطلاع دی ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے یا نہیں؟ اس واقعے میں ایک راہ گیر بچی کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔
شمالی وزیرستان: دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ، پاکستانی فوج
واقعے کی مذمت
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس دہشت گردانہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے گھروالوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور دہشتگردی کے گہواروں کو تباہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
خیبرپختونخواہ ہنوز دہشت گردوں کے نشانے پر
شمال مغربی پاکستان کا یہ خطہ ایک عرصے سے مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں اور دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ فوج کے بڑے پیمانے پر آپریشن کے باوجود دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں 2014ء میں پشاور میں قائم آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کی یاد ابھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس ہولناک اور سفاکانہ حملے میں 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔
مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ
اتوار کو پولیس افسر اعجاز خان نے کہا کہ موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے پشاور کے مضافاتی علاقے سربند کے ایک بازار میں اقلیتی سکھ برادری کے دو افراد پر فائرنگ کی۔ انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 38 سالہ رنجیت سنگھ اور کنول جیت سنگھ کو اُس وقت متعدد گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب اتوار کو وہ بٹہ تال بازار میں اپنی مصالحہ جات کی دکان لگا کر بیٹھے تھے۔ حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے۔ اس واقعے کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ پولیس اپنی تفتیشی کارروائیاں جاری رکھےہوئے ہے لیکن اعجاز خان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں دو سکھوں کو نسلی امتیاز کا شکار بناکر نشانہ بنایا گیا۔ شمال مغربی پاکستان میں سکھوں کی ایک چھوٹی سی برادری آباد ہے۔ صوبے خیبر پختونخواہ میں آئے دن سکھ باشندے عسکریت پسندوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
دریں اثناء پاکستانی صحت کے حکام نے میران شاہ میں رواں برس میں سامنے آنے والے پولیو کے تیسرے کیس کا اندراج کیا ہے۔ پاکستان کے انسداد پولیو مہم کے رابطہ کار اور ترجمان ڈاکٹر محمد شہزاد نے کہا کہ پولیو کا مہلک وائرس ایک سالہ بچے میں پایا گیا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان میں صرف ایک پولیو کیس ریجسٹر ہوا تھا۔
ک م/ ع آ ) اے پی(