پاکستان میں بقا کے خطرے سے دوچار چیتا
23 ستمبر 2010پاکستان کے محمد وسیم ماہرِ حیاتیات ہیں اور اُن کا تعلق جنگلی حیات کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف یعنی ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر سے ہے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ علی الصبح ایوبیہ نیشنل پارک کے سیر و تفرح کے لئے مخصوص تنگ راستوں سے ہو کر گزریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُس وقت پاکستان میں چیتے کی بقا کے خطرے سے دوچار اِس نسل کے کسی جانور کو دیکھنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
محمد وسیم بتاتے ہیں:’’2005ء میں صرف ایک چیتا تھا، جو آدم خور بن گیا اور جس نے مجموعی طور پر چھ خواتین کو حملے کا نشانہ بنایا۔ پہلے ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ قدرتی تحفظ کے محکمے نے اِس چیتے کو پکڑا اور مروا ڈالا۔ اِس کے باوجود مقامی آبادی نے باقی چیتے بھی ہلاک کرنا شروع کر دئے۔ نیتجہ یہ ہوا کہ اِس علاقے میں اجنبی چیتے آ گئے، جو یہاں پیدا ہونے والے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ جارح تھے۔ ایسے میں انسانوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔‘‘
محمد وسیم بتاتے ہیں کہ نیشنل پارک میں سے گزرتے ہوئے جب کبھی اُس کا سامنا مقامی آبادی سے ہوتا ہے تو وہ اُنہیں بتاتا ہے کہ چیتے کی اِس نسل کے جانوروں کے ساتھ درست برتاؤ کیسا ہونا چاہئے:’’عمر رسیدہ لوگ پہلے یہ جانتے تھے کہ چپ چاپ کھڑے ہو جانا چاہئے تاکہ چیتے کو غائب ہو جانے کے لئے مہلت مل جائے۔ اب لیکن سب ڈر جاتے ہیں اور فوراً بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیتوں نے انسانوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا کیونکہ وہ اُنہیں ایک اچھا شکار سمجھتے تھے۔ تب ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ایک منصوبہ شروع کیا تاکہ انسان اور چیتے کے درمیان تنازعے کی شدت کو کم کیا جائے۔‘‘
محمد وسیم باقاعدگی کے ساتھ مختلف دیہات اور اسکولوں میں جاتے ہیں اور لوگوں کو اِس خطے میں جانوروں کی انواع کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو مشورے بھی دیتے ہیں کہ اگر اُن کا کسی درندے کے ساتھ سامنا ہو جائے تو اُنہیں کس قسم کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے۔
محمد وسیم خواتین کو مثلاً یہ بتاتے ہیں کہ اُنہیں جلانے کے لئے لکڑیاں اکٹھی کرنے کی غرض سے صبح چھ بجے سے پہلے جنگل میں بالکل نہیں جانا چاہئے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ سورج نکل آنے کے بعد بہت ہی کم جانور سامنے آتے ہیں۔ پھر یہ کہ لوگوں کو اُن علاقوں میں جانے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، جہاں چیتے اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کر رہے ہوتے ہیں۔
محمد وسیم کے لیکچرز سننے والوں میں محمد علی نام کا ایک مزدور بھی شامل ہے، جو اپنے ملے جلے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے:’’مجھے بھی چیتے کو دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مَیں واقعی ڈر گیا تھا۔ چند ایک لوگ اُنہیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کوئی چیتا مار دیں تو پھر محکمہء جنگلات کے افسران آن پہنچتے ہیں اور سزا دیتے ہیں۔ آدمی کو جیل کی بھی سزا ہو سکتی ہے۔‘‘
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر جس منصوبے پر عمل پیرا ہے، اُس کا مقصد یہ ہے کہ جنگلاتی علاقے میں انسان اور جانور کے درمیان کشمکش کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ ایوبیہ نیشنل پارک میں چیتے کی نسل کے تحفظ کے لئے وضع کئے گئے ایک پروگرام کی تفصیلات بتاتے ہوئے محمد وسیم کہتے ہیں:’’اِس خطے میں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کسی بھی شخص کو، جس کے کسی مویشی کو کسی چیتے نے ہلاک کیا تھا، زرِ تلافی کی رقم ادا نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ چیتوں کا شکار کیا گیا۔ ماضی میں اِس طرح کا زرِ تلافی کا نظام موجود رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے متاثرہ لوگوں کو ہلاک ہونے والے مویشیوں کے بدلے میں زرِ تلافی کی ادائیگی کا سلسلہ پھر سے شروع کیا ہے۔‘‘
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے حیران کن تجزیے میں کہا گیا ہے کہ جب لوگ چیتوں پر حملہ کرنا بند کر دیتے ہیں، تو پھر چیتے بھی انسان پر اُتنا زیادہ حملہ آور نہیں ہوتے۔ محمد وسیم بتاتے ہیں:’’انسان اور چیتے کے باہمی تنازعات پر قابو پانے کے سلسلے میں اپنے پروگرام میں ہم نے کوشش کی کہ کیسے دیہی آبادی اور اُن کے جانوروں پر حملوں میں کمی کی جا سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حملوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اِس علاقے میں ہمارے منصوبے کا یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔‘‘
پہلے چیتے کی یہ نسل پاکستان کے بہت سے علاقوں میں پائی جاتی تھی۔ آج کل یہ چیتا ایوبیہ نیشنل پارک ہی کی طرح کے محض چند ایک علاقوں میں ملتا ہے۔ اِس غیر سرکاری تنظیم کی ابتدائی کامیابیاں یہ امید دلاتی ہیں کہ اس جانور کی بقا کو لاحق خطرہ ٹل جائے گا۔
رپورٹ: یوٹا شوینگزبیئر (پاکستان) / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق