پاکستان ٹی ٹی پی کو قابو کرنے میں کیوں ناکام؟
31 جنوری 2023کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر ختم کرنا نہیں چاہتا جبکہ کچھ کے خیال میں پاکستان نے ان کو کافی حد تک ختم کر دیا تھا لیکن خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر یہ دوبارہ سے نمودار ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج نےٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے خلاف 2004 ء سے لے کر اب تک کئی فوجی آپریشنز کیے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی ایک بار پھر منظم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔
ریاست دلچسپی نہیں رکھتی
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ریاست ان عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ان کا دعوی ہے کہ مختلف تنظیمیں کچھ برسوں سے حکومت کی توجہ مسلسل تحریک طالبان پاکستان کی ری گروپنگ کی طرف دلا رہی تھیں لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ واضح رہے کہ سوات سمیت خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ اور دوسری تنظیموں کے طرف سے طالبان کی ری گروپنگ اور مختلف علاقوں میں ان کی موجودگی کے خلاف گزشتہ کچھ مہینوں میں کئی مظاہرے کیے گئے۔
رانا ثناء اللہ کا بیان، ایک نئی بحث چھڑ گئی
پشاور سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا دعوی ہے کہ ریاست عسکریت پسندوں کو ختم کرنا نہیں چاہتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اگر ریاست ان کا قلع قمع کرنا چاہے تو اس میں کوئی وقت نہیں لگے گا لیکن سرکار کی طرف سے جو مختلف آپریشنز کیے گئے اس میں ان دہشت گردوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ عام لوگوں کے بازاروں، مارکیٹوں، دکانوں اور گھروں کو نشانہ بنا کر ان کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔‘‘
ڈاکٹر سید عالم محسود کے مطابق ریاست آج بھی اس طرح کے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے اور وہ پختون بیلٹ کو خون میں نہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔
نئی پراکسی وار
پختون قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر سر اٹھائے گا اور ملک کے طول و عرض میں پھیل جائے گا لیکن حکومت نے ان کی وارننگ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ ان عسکریت پسندوںکو اس لیے نہیں ختم کیا گیا کیونکہ خطے میں کچھ عناصر ایک نئی پراکسی جنگ چاہتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ان عسکریت پسندوں کو اس لیے قابو نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ ریاستی ادارے ایک بار پھر پختون بیلٹ میں پراکسی وار شروع کرنا چاہتے ہیں اور ان عسکریت پسندوں کو اس جنگ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک ریاست دہشتگردی کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گے، اس وقت تک ان عسکریت پسندوں کو قابو میں نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ریاست قابو کرنا چاہتی ہے لیکن مشکلات ہیں
تاہم دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے ہزاروں شہداء کی قربانی دے کر ان دہشت گردوں کے خلاف کامیاب لڑائیاں لڑیں۔ تاہم خطے میں موجود پاکستان دشمن قوتیں انہیں ایک بار پھر متحد کررہی ہیں اور کئی مشکلات کی وجہ سے ریاست ان کو قابو کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔
سوات میں طالبان کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن کی تیاریاں؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس مرتبہ پاکستان کے لیے ان دہشتگردوں سے نمٹنا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں پاکستان نے ان دہشتگردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو قابو کرنے میں مشکلات ہورہی ہیں۔‘‘
جنرل غلام مصطفے کے مطابق اس کے علاوہ افغان طالبان بھی تعاون نہیں کر رہے۔ ''جبکہ امریکی ڈرون کی عدم موجودگی اور معاشی مشکلات کے پیش نظر بھی پاکستان کو ان دہشتگردوں کو قابو کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘‘
سیاسی اتفاق رائے کی کمی
جنرل غلام مصطفی کے مطابق اس کے علاوہ سیاسی اتفاق رائے کی بھی کمی ہے۔ ''ماضی میں ان عسکریت پسندوں کے خلاف جو فوجی آپریشنز شروع کیے گئے، اس میں سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے شامل تھا لیکن اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ اس لیے حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے بھرپور طریقے سے نمٹ نہیں پارہی اور عسکریت پسندوں کو فائدہ ہورہا ہے۔‘‘
فوج پر الزامات اور دہشت گردی
غلام مصطفی کا دعوی تھا کہ کیونکہ سیاسی جماعتوں نے فوجی قیادت پر دشنام طرازی کی اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے، تو اس سے بھی دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ ''اور اب وہ منظم ہو کر پاکستانی ریاست کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستانتحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور دوسری سیاسی جماعتوں نے فوج پر بے بنیاد الزامات لگائے، جس سے عسکریت پسندوں کے حوصلے بڑھے اور ان کو یہ لگا کے قوم منقسم ہے۔ سیاستدانوں کو اس طرح کا طرز عمل بالکل اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا اور فوج پر اس طرح دشنام طرازی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس سے ملک کو نقصان اور دہشت گردوں کو فائدہ ہوا ہے۔‘‘