پاکستان میں ’روشن خیال طبقے‘ پر خوف کے سائے
14 جنوری 2011وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی، جو ایک مسیحی ہے، بھی اس متنازعہ قانون کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ انتہاپسندوں کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ انہوں نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’آسیہ بی بی کے مقدمے کے دوران مجھے مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد سے ایسے پیغامات کھلے عام دیے جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسند مذہبی رہنما ان کا سر قلم کرنے کے فتوے جاری کر چکے ہیں اور وہ لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے سرعام پیغامات دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’حکومت کو نفرت انگیز تقریریں کرنے والے تمام افراد کے خلاف مقدمے درج کرنے چاہئیں۔‘
شہباز بھٹی کا مزید کہنا تھا، ’میں خصوصی سکیورٹی انتظامات کی بات نہیں کر رہا۔ ہمیں دہشت پھیلانے والے ان عناصر کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ملک کو دہشت زدہ کر رکھا ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا متنازعہ قانون اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد حکومت انتہاپسند مذہبی تنظیموں کے دباؤ کے پیش نظر یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
دوسری جانب ابھی منگل کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہی توہین رسالت کے ایک مقدمے میں ایک مولوی اور اس کے بیٹے کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کی ایک ضلعی عدالت نے گزشتہ برس نومبر میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنا دی تھی، جس کے بعد توہین رسالت کے متنازعہ قانون پر بحث چھڑ گئی۔
رواں ماہ سلمان تاثیر کے قتل کا اعتراف کرنے والے مَلک ممتاز حسین قادری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اس نے توہین رسالت کے قانون کی مخالفت پر ہی سلمان تاثیر کو قتل کیا۔ پاکستان میں انتہاپسند نظریات رکھنے والا طبقہ ان کے قتل پر کھلے عام جشن منا رہا ہے جبکہ قادری کو ہیرو بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے اپنے دورہ پاکستان میں تاثیر کے قتل کے حق میں پائی جانے والی حمایت پر تشویش ظاہر کی۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عابد حسین