پاکستان میں ’صوفیانہ اسلام‘ حملوں کی زد میں
25 اکتوبر 2010پاکستانی تجزیہ نگار اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ دہشت گرد صوفیا کے مزارات کو نشانہ بنا کر کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
معروف تجزیہ نگار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمٰن کا کہنا ہے کہ امن اور محبت کا درس دینے والے صوفیا جس اسلامی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کے پیروکار برصغیر کے مسلمانوں میں واضح اکثریت رکھتے ہیں۔ لیکن القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے اس تصور کی شدید مخالف ہیں اور وہ اسے اپنے جہادی نظریات کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔
راشد رحمٰن کے بقول اسی لئے ان مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ان دہشت گرد تنظیموں میں وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایسے تشدد پسند گروہ بھی شامل ہیں، جو مزارات پر جانے اور وہاں اظہار عقیدت کے روایتی طریقوں کو اسلام کے اصل پیغام کے عین برعکس سمجھتے ہیں۔
راشد رحمٰن کے مطابق دہشت گردی کے حالیہ واقعات اگرچہ انتہائی افسوسناک ہیں تاہم صوفی بزرگوں کے مزارات پر حملے پاکستان کے اکثریتی مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دہشت گردوں کے خلاف ایک نئے سیاسی اور مذہبی محاذ کے بنائے جانے کا باعث بن رہے ہیں، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما قاری زوار بہادر کا کہنا ہے کہ اکثریتی مسالک کے مسلمانوں کی عقیدت کے مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کے ذریعے عدم استحکام کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید کے مطابق پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس سازش میں کسی بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مزارات پر ہونے والے حملوں میں ہاتھ کسی کا بھی ہو، سوال یہ ہے کہ عوام کے اداکردہ ٹیکسوں سے بھاری رقوم حاصل کرنے والی سرکاری سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کی ان خونریز وارداتوں کا وقت سے پہلے پتہ چلانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں