1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’صوفیانہ اسلام‘ حملوں کی زد میں

25 اکتوبر 2010

پاکستان میں داتا گنج بخش اور عبداللہ شاہ غازی کے مزارات پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد اب معروف صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر کے مزار کے باہر ہونے والے بم دھماکے نے کئی نئے سوالات پیدا کر دئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Pnle
معروف صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر کے مزار کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے بعد کا منظرتصویر: AP

پاکستانی تجزیہ نگار اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ دہشت گرد صوفیا کے مزارات کو نشانہ بنا کر کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

معروف تجزیہ نگار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمٰن کا کہنا ہے کہ امن اور محبت کا درس دینے والے صوفیا جس اسلامی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کے پیروکار برصغیر کے مسلمانوں میں واضح اکثریت رکھتے ہیں۔ لیکن القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے اس تصور کی شدید مخالف ہیں اور وہ اسے اپنے جہادی نظریات کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔

Pakistan Anschlag Sufi Heiligtum
پاکپتن میں بم حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار ثبوت جمع کرتے ہوئےتصویر: AP

راشد رحمٰن کے بقول اسی لئے ان مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ان دہشت گرد تنظیموں میں وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایسے تشدد پسند گروہ بھی شامل ہیں، جو مزارات پر جانے اور وہاں اظہار عقیدت کے روایتی طریقوں کو اسلام کے اصل پیغام کے عین برعکس سمجھتے ہیں۔

راشد رحمٰن کے مطابق دہشت گردی کے حالیہ واقعات اگرچہ انتہائی افسوسناک ہیں تاہم صوفی بزرگوں کے مزارات پر حملے پاکستان کے اکثریتی مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دہشت گردوں کے خلاف ایک نئے سیاسی اور مذہبی محاذ کے بنائے جانے کا باعث بن رہے ہیں، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔

Pakistan Selbstmordanschlag
جولائی کے شروع میں لاہور میں داتا دربار کے احاطے میں کئے گئے خود کش حملوں میں تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: ap

جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما قاری زوار بہادر کا کہنا ہے کہ اکثریتی مسالک کے مسلمانوں کی عقیدت کے مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کے ذریعے عدم استحکام کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید کے مطابق پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس سازش میں کسی بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مزارات پر ہونے والے حملوں میں ہاتھ کسی کا بھی ہو، سوال یہ ہے کہ عوام کے اداکردہ ٹیکسوں سے بھاری رقوم حاصل کرنے والی سرکاری سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کی ان خونریز وارداتوں کا وقت سے پہلے پتہ چلانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں