1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز

Atif Baloch23 دسمبر 2011

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، لیکن خواتین کے لیے اس ’دنیا کے تیسرے سب سے خطرناک ملک‘ میں کام کرنا آسان بات نہیں۔

https://p.dw.com/p/13YUo
زاہدہ پروین پاکستان کی پہلی ٹیکسی ڈرائیور ہیںتصویر: Hasan Faizi

خواتین کے لیے پاکستان میں کام کرنا آسان بات نہیں، جہاں انہیں جسمانی، نفسیاتی اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا خوف کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ افشین، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز PIA کے لیے ایک ایئر ہوسٹس کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہیں اس ایئر لائن کے لیے کام کرنے کی خاطر منتخب کیا گیا، تو مسافروں کو مطمئن رکھنے کے بارے میں ان کو تفصیلی تربیت دی گئی۔ لیکن پائلٹوں کو’خوش‘ کرنے کا ذکر اس ابتدائی تربیت میں ہرگز نہیں آیا تھا۔

بھرتی ہونے کے چند ماہ بعد ایک پائلٹ نے انہیں اور ان کی ایک ساتھی کو پرواز کے دوران کاک پٹ میں بلایا۔ ’’انہوں نے ہمیں کمر پر اور سینے پر جان بوجھ کر چھوا۔ جب ہم نے گھبراہٹ ظاہر کی تو انہوں نے غلطی کا بہانہ کر کے بات کو رفع دفع کر دیا۔‘‘ لیکن حالات تب بگڑنا شروع ہوئے جب پائلٹوں نے پروازوں کے دوران اور اپنے دفاتر میں جنسی تعلقات کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ، اور ان میں سے چند ایک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔

Zahida Kazmi
زاہدہ کاظمیتصویر: Hasan Faizi

9 اکتوبر 2011ء کو پی آئی اے کی کیپٹن رفعت حئی نے اس معاملے کی خبر ہوتے ہی اسے منظر عام پر لانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر خواتین کارکن اعلیٰ افسران کے ’مطالبات‘ کو پورا کرنے سے انکار کرتی ہیں، تو انہیں پرموشن میں رکاوٹ اور ڈیموشن کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ تا ہے۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین اپنے ساتھی مرد کارکنوں کی طرف سے ہراساں کی جاتی ہیں لیکن اپنی اور اپنے خاندانوں کی عزت اور وقار زیادہ تر ان خواتین کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد خواتین روزمرہ زندگی کی جگہوں پر ہراساں کی جاتی ہیں۔ اگرچہ صدر آصف علی زرداری نے اقتدار میں آتے ہی خواتین کے تحفظ کے بل پر دستخط کر د یے تاہم صورتِ حال میں کچھ خاص بہتری دکھائی نہیں دی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ بینکر سارہ ندیم کہتی ہیں، ’’ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ خواتین، خاص طور پر نوکری پیشہ خواتین ہراساں کی جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں خاموش رہنا پڑتا ہے، ورنہ ہمارے باپ دادا اور بھائی ہمیں کسی صورت کام نہیں کرنے دیں گے۔ وہ مطمئن ہیں، جب تک کہ ان کی اپنی بہنیں اور بیٹیاں ہراساں نہیں کی جا تیں۔ کام کے بغیر ہمارا گزارہ مشکل ہے۔‘‘

سارہ کے لیے کام چھوڑنے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ برانڈڈ کپڑے، بیگ اور دیگر اشیاء سے محروم ہو جائے گی۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے دیگر امیر دوستوں اور ساتھیوں کی طرح وہ بھی تازہ ترین فیشن اور رجحانات کی متحمل ہو سکے۔

تاہم جرمنی میں کام کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات شاز و نادر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ ایسے واقعات بالکل ہی نہیں ہوتے۔

ڈوئچے ویلے بون میں صنفی مساوات کی نمائندہ ڈاکٹر بٹینا برک ہارڈ (Bettina Burkhardt) کا کہنا ہے کہ بعض اوقات عورتیں ان کے پاس دفتر میں اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور ایسے مسائل سے نمٹنے کے بارے میں مشورے حاصل کرنے آتی ہیں۔

’’اکثر یہ شکایات چند ایسے مردوں کے بارے میں ہوتی ہیں جو اپنے ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ لیکن جب ایک بار یہ مسئلہ مجھ تک لایا جاتا ہے، تو اسے فوری طور پر حل کر دیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ایک جگہ پر اگر مرد یا خواتین میں سے کسی کی بھی تعداد زیادہ ہو گی، تو صنفی مساوات اور توازن پر اثر تو پڑے گا۔‘‘

برک ہارڈ کے مطابق جرمن خواتین جرمن مردوں کے مقابلے میں زیادہ قابل ہوتی ہیں، لیکن جب کام کی بات آتی ہے تو خواتین اب بھی اپنے ہم منصب مرد کارکنوں کے مقابلے میں 23 فیصد کم تنخواہیں لے رہی ہیں۔

یہاں بھی خواتین کو مشہور ’کانچ کی چھت‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں پہنچ کر ان کے لیے مزید ترقی کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ برک ہارڈ بتاتی ہیں کہ کئی جرمن کمپنیاں اب یونیورسٹیوں کے ساتھ فعال طور پر کام کر رہی ہیں تاکہ تکنیکی روزگار کی طرف زیادہ سے زیادہ طالبات متوجہ ہوں، جہاں کہ روایتی طور پر مردوں کا غلبہ ہے۔ کئی جرمن کمپنیاں اس مقاصد کے تحت بھی کام کر رہی ہیں کہ وہ اپنے ہاں خواتین ملازمین کے تناسب کو عنقریب کم از کم 30 فیصد تک لے جائیں۔

حالانکہ پاکستان میں نوکری پیشہ خواتین کی تعداد اب بھی بہت کم ہے اور وہ اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں اکثر کم تنخواہیں لیتی ہیں، تاہم امید ہے کہ پاکستانی کمپنیوں میں عنقریب مزید خواتین بڑے اور پیشہ ورانہ عہدوں پر فائز نظر آئیں گی۔

2010ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2.6 ملین ہائی اسکول کے طالب علموں میں سے 42 فیصد سے زائد لڑکیاں تھیں، جب کہ 18 برس قبل یہ تناسب صرف 30 فیصد تھا۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے 1.1 ملین طالب علموں میں 47 فیصد خواتین ہیں۔ 1993 میں یہ شرح محض 23 فیصد تھی۔

Indien Frauen Protest Slutwalk Delhi sexuelle Gewalt
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد خواتین روزمرہ زندگی کی جگہوں پر ہراساں کی جاتی ہیںتصویر: AP

فروری 2001ء کی ’بورڈ رومز میں خواتین‘ نامی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی کمپنیوں کے بورڈز کے ارکان میں سے 4.6 فیصد خواتین ہیں اور دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے 78 نشستیں خواتین کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ نہ صرف وزیر خارجہ ایک عورت ہے، بلکہ قومی اسمبلی کی اسپیکر اور حال ہی میں نامزد کردہ امریکہ میں نئی پاکستانی سفیر بھی ایک خاتون ہیں۔

اسی طرح خواتین آہستہ آہستہ غیر روایتی پیشوں کا رخ بھی کر رہی ہیں، اگرچہ انہیں ہر قدم پر مردوں کے جارحانہ رویوں سے متعلق احتیاط برتنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس کی جیتی جاگتی مثال 50 سالہ بیوہ زاہدہ کریم ہیں جو اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹیکسی چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مسافروں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، لیکن اکثر وہ بہت احترام اور دوستانہ رویے سے پیش آتے ہیں۔‘‘ لیکن اس کی وجہ زاہدہ کا بڑھاپا اور ان کے سر اور جسم کو ڈھانپنے والی ان کی بڑی سی چادر بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں جو خواتین اپنے سروں اور سینوں کو چادر سے صحیح طرح سے نہیں ڈھانپتیں، ان پر مرد باآسانی broad-minded اور easy to approach کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ اس تعصب کو تبدیل کرنے میں ابھی کم از کم بھی ایک عشرے تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

رپورٹ: عائشہ حسن

ادارت: عصمت جبیں